اصول یہ ھے کہ پیغمبرعلیہم و علی رسولنا الصلوۃ والسلام جس جگہ فوت ھوتے ھیں وھیں اسی جگہ دفن ھوتے ھیں – چاہے وہ گھر ھو یا صحراء ھو-
دوسرا یہ کہ رسول کو کپڑوں سمیت غسل دیا جاتا ھے ان کے کپڑے نہیں اتارے جاتے –
لیکن اگر آپ کے راوی قوی ھوں تو وہ زندہ رسول کو بھی مادر زاد ننگا کر کے گلیوں میں دوڑا سکتے ھیں – ( معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ) مجال ھے جو کوئی مائی کا لعل گستاخی یا توھین کا فتوی لگا سکے – اگر کوئی شک ھے تو بزمِ رضا شیخوپورہ نے جو امام صاوی کی شرح اور بخاری شریف کی حدیث شیئر کی ھے ملاحظہ فرما لیجئے – ھم اس پر مزید تبصرہ نہیں کریں گے – البتہ بعد میں مضمون لگا دیں گے اگر ساتھیوں نے مطالبہ کیا تو ،،
Bazm e Raza Sheikhupura shared a status. October 27
دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔ پہلامعجزہ:۔اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خداوند قدوس نے اُن کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمتِ نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کرسکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کے لئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔
اس مکروہ تہمت کی شورِش کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خداوند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ اَرحم الرَّاحمین نے آپ کی برأت اور بے عیبی ظاہر کردینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور اُن کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی برأت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکارا ہو گیا۔ اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کے لئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کے لئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سرپٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر۔ یعنی اے پتھر!میرا کپڑا ۔ اے پتھر میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتار ہا۔ یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔ اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے ۔
اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ وَاللہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَاس یعنی خدا کی قسم موسیٰ بالکل ہی بے عیب ہیں۔ جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برأت کا اعلان کرچکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ (بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب ۳۰،ج۲، ص۴۴۲،رقم ۳۴۰۴ ،تفسیر الصاوی،ج۵،ص۱۶۵۹،پ۲۲،الاحزاب:۶۹ ) اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ:۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوْا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَکَانَ عِنۡدَ اللہِ وَجِیۡہًا ﴿69﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔ اے ایمان والو اُن جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو اُنہوں نے کہی۔ اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
((إن موسى كان رجلاً حيياً ستيراً لا يرى جلده شيء استحياء منه، فأذاه من أذاه من بني إسرائيل.
فقالوا: ما يستتر هذا التستر إلا من عيب بجلده، إما برص أو أدرة، وإما آفة، وأن الله عز وجل أراد أن يبرأه مما قالوا لموسى، فخلا يوماً وحده، فوضع ثيابه على الحجر، ثم اغتسل فلما فرغ أقبل على ثيابه ليأخذها، وإن الحجر عدا بثوبه.
فأخذ موسى عصاه، وطلب الحجر، فجعل يقول:
ثوبي حجر، ثوبي حجر، حتى انتهى إلى ملأ من بني إسرائيل، فرأوه عرياناً أحسن ما خلق الله، وبرأه مما يقولون.
وقام الحجر فأخذ ثوبه فلبسه، وطفق بالحجر ضرباً بعصاه، فوالله إن بالحجر لندباً من أثر ضربه ثلاثاً أو أربعاً أو خمساً قال: فذلك قوله عز وجل (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهاً} [الأحزاب: 69])).
موسی علیہ السلام اسی قوم میں پیدا ھوئے تھے – پہلے فرعون کے محل میں پلے بڑھے اور شاھی حمام میں نہاتے تھے ،، وھاں سے بھاگے تو اسی حال میں بھاگے ،، اپنی قوم میں وہ نبی بن کر ھی آئے ،، اور بیوی اور بیٹے سمیت آئے ،، بنی اسرائیل نسل در نسل نبیوں کی اولاد تھی ،کوئی بندروں کی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے کہ ان میں ایک بھی حیا والا نہیں تھا خود ھارون علیہ السلام اسی بنی اسرائیل میں موجود تھے کیا وہ بھی قوم کے ساتھ ننگے نہایا کرتے تھے ؟ ھر انسان کو پتہ ھوتا ھے کہ اس کی اولاد میں سے بھی بعض بچے سب کے سامنے نہانے سے کتراتے ھیں ،،کیا ھمیں معلوم نہیں کہ لوگ دیہات کے تالابوں میں کس طرح ننگے نہایا کرتے تھے اور اب بھی نہایا کرتے ھیں ،،مرد کو صرف ایک ھی چیز چھپانی ھوتی ھے ، نہانے میں اوپر کا بدن تو سب کا نظر آتا ھے ،آخر اللہ کیوں ان کو پانی سے نکالنا چاھتا تھا ؟ کوئی پانی میں چھپی چیز ھی دکھانا چاھتا تھا ناں ؟ کیا یہ کسی رسول کو خوار کرنے کا آسان فارمولہ نہیں ھے کہ اس کے ستر کے بارے میں کوئی افواہ اڑا دو تا کہ اللہ اس کو ننگا کر کے دکھا دے ؟
کہاں لکھا ھے کہ موسی علیہ السلام ایک کپڑے میں بھاگے تھے ؟ اگر اللہ کو اوپر کا بدن ھی دکھانا مطلوب تھا تو براہ راست موسی علیہ السلام کو حکم نہیں دیا جا سکتا تھا کہ اپنی قمیص اتار کر دکھا دیں ؟ پھر قومِ فرعون کا ذکر نہیں ان کی اپنی قوم کا ذکر ھے جو ان پر ایمان لا چکی تھی کیا وہ اپنی قوم کو ھی بدن دکھانے پر تیار نہ ھوتے ،، اب آیئے اس حدیث کے متن کی طرف ،،،،، پہلے تو جس آیت کی تفسیر میں اس کو پیش کیا گیا ھے ، اس آیت میں جسمانی عیب کا ذکر ھی نہیں ،، وھاں تو الزام کا ذکر ،کردار پر الزام کی بات ھو رھی ھے جس پر موسی کو قوم سے اذیت پہنچی تو اللہ نے ان کو بری ثابت کر دیا ،، اگر برص کی بیماری کا الزام ھوتا تو برص میں قوم کا کیا قصور تھا ؟ اور یہ نبی کریم ﷺ پرمعاذ اللہ حضرت زینب سے ملوث ھونے کے الزام کے پسِ منظر میں بات ھو رھی ھے کہ اے ایمان والو تم بھی اپنے نبی کو اس طرح اذیت مت دو جس طرح موسی علیہ السلام کو ان کی قوم نے اذیت دی تھی تو اللہ نے ان کو پاک صاف ثابت کر دکھایا –
کیونکہ یہاں مماثلت کی بات ھے ،اب یہ مفسرین کے ذمے ھے کہ وہ ثابت کریں کہ نبی کریم ﷺ پر بھی کوئی جسمانی عیب کا الزام تھا – سورہ الاحزاب کی اپنی تفاسیر دیکھیں کہ نبئ کریم ﷺ پر کیا الزام تھا کہ بہو کو چھت پر سے نہاتے دیکھا تو عاشق ھو گئے اور دباؤ ڈال کر طلاق دلوائی اور خود نکاح کر لیا ، یہی الزام حضرت داؤد پر اپنے سزدار کی بیوی کے سلسلے میں بھی تھا جس کی صفائی اللہ نے پیش کی اور یہی الزام قارون نے ایک عورت کو پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر لگوایا تھا ،مگر اللہ نے بر سرِ مجمع اس عورت کی زبان پلٹ دی اور اس نے مجمعے میں ھی کہہ دیا کہ قارون نے مجھے پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر بدکاری کا الزام لگانے پر آمادہ کیا تھا ،،جسمانی عیب کا الزام نہ نبئ کریم ﷺ پر تھا اور نہ موسی علیہ السلام پر ،، اصل میں یہ کعب احبار کی کارستانی ھے کہ جس نے وہ تمام گند جو قرآن نے بنی اسرائیل کے نبیوں پر سے ھٹایا تھا اس نے کمال ھوشیاری سے اپنے شاگردوں کے ذریعے دوبارہ حدیثوں کے طور پر مقدس کتابوں میں ٹھونس دیا ،،
جب تک عمر فاروقؓ زندہ رھے انہوں نے ھمیشہ اس دجال پر نظر رکھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کی یہودیت گئ نہیں اور یہ مکمل مسلمان نہیں ھے ،جب فاروق بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ نماز کس طرف کو پڑھیں ؟ کعب احبار نے مشورہ دیا کہ امیر المومنین اگر آپ اس رخ سے نماز پڑھیں گے تو پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ھو گا ،، کعب احبار حضرت عمرؓ کو اس جگہ سے دور رکھنے کی کوشش کر رھے تھے کہ جہاں نبئ کریم اور تمام نبیوں نے نماز ادا کی تھی ،، اس چالاک بندے کو پتہ تھا کہ عمرؓ جہاں نماز پڑھیں گے اپنے نبی ﷺ کی سنت کے طور پر وھیں نماز پڑھیں گے وہ موسی علیہ السلام کی جائے نماز پر مسلم عبادتگاہ بننے نہیں دینا چاھتا تھا ، عمر فاروقؓ یہ بات تاڑ گئے اور فرمایا کہ اے کعب واللہ تیرے اندر سے یہودیت مری نہیں ھے ،میں وھیں نماز پڑھونگا جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی ھے ،چنانچہ آپ نے وھیں نماز پڑھی جہاں آج مسجد عمر فاروقؓ موجود ھے ،، رہ گئ بیماری والے ترجمے کی بات تو گزارش ھے کہ اس حدیث کی تفاسیر ھی دیکھ لیجئے کہ آپ کے بزرگوں نے بیماری کی تفسیر کیا کی ھے اس میں باقاعدہ خصیوں کے غیرمتوازن ھونے تک کی بات کی گئ ھے کیونکہ اس چھپی بیماری کا ھر نام اس حدیث میں لے لیا گیا ھے ،، برص او آدرہ او آفہ ،، اس آفت کا ترجمہ کیا ھے ؟ برص چھپے حصے میں ھو تو عیب نہیں ھوتا ،عیب وھاں ھوتا ھے جہاں لوگوں کو نظر آتا ھے ـ نیز اگرھرنیا ھو بھی تو وہ چھپی جگہ ھوتا ھے ، اس سے بھی وجاھت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،، کس نے کبھی وجاھت کے امتحان میں کسی کے چھپے اعضاء کو چیک کر کے ٹرافی دی ھے ؟