حضرت ابراھیم علیہ السلام کے تین جھوٹ

روایت ہے کہ ابراھیم علیہ السلام نے بادشاہ سے اپنی زوجہ کو بچانے کے لئے بہن بتا دیا، ظالمو یہ وہی ابراہیم خلیل اللہ نہیں تھے جو بےخوف و خطر آگ میں چھلانگ لگا کر آئے تھے ؟ مگر تم کہتے ہو وہاں بھی جھوٹ بول کر آئے تھے کہ بت میں نے نہیں توڑے اس بڑے بت نے توڑے ہیں ، جھوٹ تو کوئی جان بچانے کے لئے بولتا ہے ، چند آیتوں بعد ابراھیم نے آگ میں چھلانگ لگا کر تمہارے منہ پر تھوک دیا ، نسوار کی ٹشو میں رکھی گولی کے برابر بھی عقل ہو تو انسان سمجھ سکتا ہے کہ فریق مخالف سے بتوں کی بےبسی اور بےکسی تسلیم کرانے کے لئے یہ چال چلی گئ تھی ۔ پھر جب اس حجت کے نتیجے میں اس مجمعے نے تسلیم کر لیا کہ بت بول تک نہیں سکتے تب ابراھیم علیہ السلام نے انہیں کہا کہ پھر تم ان کی پوجا کیوں کرتے ہو جو تمہیں نہ تو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اف ہے تم پر بھی اور ان پر بھی جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوا۔ جنسی تعلق کے لئے کسی کی بیوی کی بجائے کنواری بہن کا رشتہ پرکشش نہیں ہوتا؟ وہ کونسا الو کا پٹھا بادشاہ تھا جو کسی کی بیوی سے جنسی تعلق کو انجوائے کرتا اور بہن کو چھوڑ دیتا تھا؟ ان راویوں نے اپنے شاگردوں کو الو سمجھا اور شاگردوں نے ان کے گمان کو سچ کر دکھایا ۔ اللہ پاک نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں فرمایا، اس نے اپنی قوم کو حقیر جانا سو انہوں نے اس کی اطاعت کر کے اس کا یہ گمان سچ کر دکھایا ۔ یہ واقعی فاسق قوم تھے (فاستخف قومہ فاطاعوہ انھم کانوا قوما فاسقین ۔) ابراھیم علیہ السلام نے فرمایا کہ انی سقیم مجھ میں سقم ہے آئی ایم ناٹ فیلنگ ویل ۔ کس کے پاس میڈیکل رپورٹ ہے کہ ابراھیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا؟ انسان کا کچھ کھانے کو جی نہ کرے تو بھی سقیم ہوتا ہے، کہیں جانے پہ جی آمادہ نہ ہو تو بھی سقیم ہوتا ہے ۔ مگر ایوری تھنگ از پاسیبل ان کارٹونز کی طرح روایتوں اور راویوں سے ہر قسم کے لطیفے ممکن ہیں۔

فیس بک پوسٹ

 

آیت و روایت
فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ
پس اس نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، سوائے ان کے ایک بڑے کے، تاکہ وہ اسی کی طرف رجوع کریں۔
انبیاء – 58
قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ
انھوں نے کہا کیا تو نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے اے ابراہیم!؟
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ
اس نے کہا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے، سو ان سے پوچھ لو، اگر وہ بولتے ہیں۔
انبیاء – 62،63
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ
جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟
أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ
کیا اللہ کو چھوڑ کر گھڑے ہوئے معبودوں کو چاہتے ہو؟
فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ
تو جہانوں کے رب کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے؟
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ
پس اس نے ستاروں میں ایک نگاہ ڈالی۔
فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ
پھر کہا میں تو بیمار ہوں۔
فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ
تو وہ اس سے پیٹھ پھیر کر واپس چلے گئے۔
فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ
تو وہ چپکے سے ان کے معبودوں کی طرف گیا اور اس نے کہا کیا تم کھاتے نہیں؟
فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ
پھر وہ دائیں ہاتھ سے مارتے ہوئے ان پر پل پڑا۔
صافات – 85 تا 93
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر، تین دفعہ (بولا) (یہ اصطلاحاً جھوٹ کہے گئے ہیں، حقیقت میں جھوٹ نہیں ہیں بلکہ یہ توریہ کی ایک شکل ہیں) ان میں سے دو جھوٹ اللہ کے لئے تھے، ایک تو ان کا یہ قول کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا یہ کہ ”ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا“ تیسرا جھوٹ سیدہ سارہ علیہا السلام کے بارے میں تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ان کے ساتھ ان کی بیوی سیدہ سارہ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت تھیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بیوی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لئے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے۔ (یہ بھی کچھ جھوٹ نہ تھا) اس لئے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کی قلم رو (اس کے علاقہ) سے گزر رہے تھے تو اس ظالم بادشاہ کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تیرے سوا کسی کے لائق نہیں ہے۔ اس نے سیدہ سارہ کو بلا بھیجا۔ وہ گئیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہو گئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لئے) جب سیدہ سارہ اس ظالم کے پاس پہنچیں تو اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فوراً اس کا ہاتھ سوکھ گیا وہ بولا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، میں تجھے نہیں ستاؤں گا۔ انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ اس نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے دعا کی۔ پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر پہلی دونوں دفعہ سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ تب وہ بولا کہ اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے، اللہ کی قسم اب میں تجھ کو نہ ستاؤں گا۔ سیدہ سارہ نے پھر دعا کی، اس کا ہاتھ کھل گیا۔ تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سیدہ سارہ کو لے کر آیا تھا اور اس سے بولا کہ تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا، یہ انسان نہیں ہے اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ایک لونڈی ہاجرہ اس کے حوالے کر دے سیدہ سارہ ہاجرہ کو لے کر لوٹ آئیں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تو نمازوں سے فارغ ہوئے اور کہا کیا ہوا؟ سارہ نے کہا بس کہ سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور ایک لونڈی بھی دی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر یہی لونڈی یعنی ہاجرہ تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو!
صحیح مسلم – 1609