میرا چھوٹا بیٹا ابرھیم جو اب ما شاء اللہ اٹھارہ سال کا ھو گیا ھے جب یہ 3 سال کا تھا تو اپنے بھائی قاسم کی دست برد سے اپنی چیزیں بچانے کے لئے میری جیب میں ڈال دیا کرتا تھا ! وہ سمجھتا تھا کہ ایک تو اس کا والد اس کی چیز میں خیانت نہیں کرے گا،، کیونکہ اسے ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ! دوسرا کوئی اس سے چھین نہیں سکتا ! تیسرا اگر کہیں گم ھو گئ تو وہ نئی لے کر دے دے گا،،یوں وہ یہ یقین رکھتا تھا کہ اس گھر میں اگر کوئی جگہ محفوظ ھے تو وہ اس کے والد کی جیب ھے اور اگر کوئی فرد اس کی حفاظت کے لئے معقول ھے تو وہ اس کا ابو ھے !
مگر مسئلہ تب پیدا ھوتا جب وہ بنٹے یا بلور میری جیب میں رکھ دیتا !
جونہی میں سجدے میں جاتا تو بلــور برادران سارے نکل کر مصلے پہ دوڑنا شروع کر دیتے ! نمازی سوچتے ھوں گے قاری صاحب فارغ اوقات میں بنٹے کھیلنے کا شغل فرماتے ھیں ! جب پے در پے ایسے واقعات ھونے لگے تو آخر مجھے مناسب لگا کہ نمازیوں کو بھی اعتماد میں لے لینا چاھئے ،، میں نے نماز کے بعد ان کو بتایا کہ ” بنٹا کجا و من کجا ! یہ ساری میرے بیٹے کی کارستانی ھے جس نے میری جیب کو سٹیٹ بینک کا لاکر سمجھا ھوا ھے !
مگر اس میں کام کی چیز یہ ھے کہ جتنا اعتماد ابراھیــم کو اپنے ابا جی پر تھا ! اتنا بھی ھمیں رب پر ھو جائے تو ھمارے سارے مسئلے حل ھو جائیں ! اللہ پاک تو بار بار خبردار کر رھا ھے کہ "ما عندکم ینفد وما عنداللہ باق ” لوگو تمہارے ھاتھ میں بے برکتی ھے تم بھی فانی تمہارے ھاتھ بھی فانی،، جو تمہارے ھاتھ میں رھے گا ختم ھو جائے گا ،فنا ھو جائے گا،،بچے گا صرف وھی جو اللہ کے ھاتھ پہ رکھ دو گے،کیونکہ وہ بھی باقی اس کے خزانے بھی باقی !
سپر مارکیٹ پہ گئے تو ابراھیم صاحب نے ایک سالڈ اسٹیل کا سپائڈر مین پسند کیا ، جس کی قیمت 99۔49 درھم تھی جب اس نے میرے چہرے پر تردد اور ھچکچاھٹ کے آثار دیکھے تو بڑے اعتماد سے اپنی جیب پر ھاتھ مار کر کہا کہ ” پیسے میرے پاس ھیں میں اپنے پیسوں سے لوں گا !
کاؤنٹر پہ جا کر میں نے ابراھیم کو بولا کہ لاؤ پیسے اور اس نے نہایت سادگی اور اعتماد کے ساتھ 25 فلس یعنی کہ چونی نکال کر میرے ھاتھ پر رکھ دی،، میں نے بھی اسے جیب میں ڈال لیا،، اب جب کبھی ماں اس پر احسان جتلاتی کہ تمہیں سپائڈر مین بھی لے کر دیا تو وہ کھیلنا چھوڑ کر بڑے اعتماد سے کہتا کہ وہ تو میں نے اپنے پیسوں سے لیا ھے ! یہ نمازوں اور روزوں کی چونی چونی ھم اللہ کے ھاتھ پر رکھ کر سمجھتے ھیں کہ جنت تو ھم نے خریدی ھے، کمائی ھے ! بھائی جان 40 سال گلف میں گزار کر دو کمرے کا گھر تو بنا نہیں ،، اور یہ دوڑتے دوڑتے پڑھے جانے والی نمازیں ھمیں جنت تعمیر کر کے دیں گی ! یہ تو اللہ کا احسان ھے کہ وہ ھماری عزت رکھ کر کہہ دیتا ھے،جزآءً بما کنتم تعملون !
میرے استاد کہا کرتے تھے کہ ایک کام کرنا ایک تو درود کثرت سے پڑھنا دوسرا اسے فوراً نبی کریم ﷺ کو گفٹ کر دینا ،، پوچھا حضرت وہ کیوں ؟ کہنے لگے بیٹا قیامت کے لین دین میں یہ اعمال سب خرچ ھو جائیں گے ! پھر تو منہ منگلوار کی طرح نکال کر کھڑا ھو جائے گا،، بچے کا وھی جو نبیﷺ کو ھدیہ کردیا ھو گا ! اس وقت نبیﷺ پاک ھی رحم فرما کر بقیہ فراھم کریں گے یعنی تیرے درود کے بعد بھی جو کمی بیشی ھو گی وہ پوری کر دیں گے ! اور تیرا عمل برکت لے کر لوٹے گا !
میرے دکاندار بھائی کی ایک بیٹی ھے ، جو ھر وقت کچھ نہ کچھ کھانے میں لگی رھتی اور اس کا والد شور کرتا ھے کہ منافع یہ کھا جاتی ھے ! وہ جب دیکھتی ھے کہ باپ کا پارہ چڑھا ھوا ھے اب کہ مفت کھایا تو پٹائی ھو جائے گی تو وہ اس کے گۜلے میں سے پانچ روپے کا سکہ اٹھا کر باھر گاھکوں والی کھڑکی میں چلی جاتی ھے ، اور نہایت اعتماد سے باپ کو آرڈر دیتی ھے "5 روپے والے بسکٹ دیو ” اور بے نیازی کے ساتھ سنجیدہ ھو کر کھڑی ھوتی ھے کہ اب اس کا باپ نہ انکار کر سکتا ھے اور نہ غصہ ! اندر جا کر ماں کو بتاتی ھے کہ اپنے پیسوں سے لے کر آئی ھوں مفت کے نہیں ھیں !
اسی طرح کی ھماری عبادتیں ھیں، اللہ کی توفیق کے ساتھ چار ٹکریں مار لیں تو اب اللہ کے ھاتھ پر رکھ کر آرڈر دیئے جا رھے کہ ” یہ لو سجدے اور کڈو ھماری جنت ” اور ساتھ گھمنڈ اور نادانی بھی یہ کہ ” یہ تو میری نمازوں کا بدلہ ھے” رب نے کوئی احسان تھوڑا ھی کیا ھے !!
جو یہ گھمنڈ لے کر جائیں گے ان سے پھر نعمتوں کا حساب ھو گا اور ایک ادنی نعمت پہاڑوں کی مانند نیکیاں کھا کر بھی شکایت کرے گی کہ اس کا حق ادا نہیں ھوا !
ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ حشر بپا ھے اور ان کو بخش دیا گیا ھے،، آنکھ کھلی تو ان کو کوئی خاص خوشی محسوس نہ ھوئی، سوچا یہ تو ھونا ھی تھا ھم نے بھی کوئی کم عبادتیں تو نہیں کی ھوئ ناں !
رات آئی تو پھر خواب شروع ھوا !
اب کہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ!
قافلہ جہنم کی طرف رواں دواں تھا تو ان کو زور کی پیاس لگی ! بار بار پانی مانگ رھے ھیں اور ایک ھی جواب ملتا ھے کہ پانی رستے میں نہیں وھیں چل کر کھولتا ھوا ملے گا ! جب وہ بہت زیادہ گڑگڑائے تو اللہ پاک نے فرمایا ” اسے روک لو اور ٹھنڈا پانی لاؤ،، پانی آ گیا،،گلاس کے باھر بھی ٹھنڈک سے پسینہ نماز قطرے بنے ھوئے تھے،، پیاس مزید بھڑک اٹھی،، اللہ نے فرمایا اس سے اس کی عبادت لکھوا لو اور پانی دے دو ! بندے نے جھٹ ساری عبادت لکھ کر دے دی اور پانی کا گلاس لے کر پی لیا ! اب اللہ پاک نے فرمایا کہ اسے واپس لے آؤ !
اللہ پاک نے فرمایا ،،تو نے اپنی عبادت کا مول خود ایک گلاس پانی لگایا ھے اور بیچ بھی دی ھے ! اب صرف پانی جو تم نے ایکسٹرا پیا ھے دنیا میں اس کا حساب کون دے گا ؟ اور جو باقی نعمتیں استعمال کی ھیں ان کا حساب کون دے گا ؟؟ آدمی کی آنکھ کھل گئ اب اسے احساس ھوا کہ وہ کتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھا ! اس نے زارو قطار رو رو کر اللہ سے معافی مانگی.