استخارہ اور مشورہ !

اللہ پاک نے رسول اللہ ﷺ کو صاحب وحی ھوتے ھوئے بھی مشورے کا حکم دیا حالانکہ جن کا دل سوتے میں بھی اللہ پاک کے ساتھ ہاٹ لائن پہ جڑا ھو اور جبرائیل جن کا مشیر ھو ان کو کسی اور سے مشورہ کرنے کی بھلا کیا ضرورت مگر چونکہ دین کے مناسک اور سنن انبیاء کے عمل سے لئے جاتے ہیں لہذا نبی ﷺ کو ھی حکم دیا [فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران ـ159)پس اللہ کے فضل کے سبب آپ ان کے لئے نرم خو ہیں ، اگر آپ تندخو، سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ یقینا آپ کے گرد سے چھٹ گئے ہوتے، پس ان سے در گزر کریں اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگیں اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں، پھر جب عزم کر لیں تو اللہ پر توکل کریں ، بےشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ـ
پس منظر اس آیت کا یہ ھے کہ غزوہِ احد میں رسول اللہ ﷺ کا اپنا ارادہ مدینے میں رہ کر لڑنے کا تھا ،مگر جو لوگ بدر میں شریک نہ ھو سکے تھے وہ بدر کی ہی طرح باہر نکل کر لڑنا اور اپنے جذبہ جہاد کو تسکین دینا چاہتے تھے لہذا ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی رائے پر اصرار نہ فرمایا اور جنگ کے لئے مدینے سے نکل پڑے ـ مگر اس جنگ میں ۷۰ مسلمانوں کی شھادت نے ایک طرف تو پورے مدینے کو سوگوار کر دیا دوسرا منافقین طعنے دینے لگے اور تیسرا مشورہ دینے والے صحابہ نفسیاتی طور پر سخت دباؤ میں آ گئے اور اپنے مشورے کے نتیجے پر پشیمانی کا شکار ھو گئے ، ان حالات میں اللہ پاک نے ان صحابہ سے مشورہ لیتے رھنے کا حکم دیا ـ

ہمارے یہاں والدین اولاد سے شادی کے بارے میں کوئی مشورہ نہیں کرتے اور استخارے کے لئے در در دھکے کھاتے پھرتے ہیں ،گویا کوئی نیک جو معاذ اللہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے اللہ پاک کے پی اے کے درجے پر فائز ھو چکا ھے وہ ان کو اندر کی خبر لا دے گا ،، استخارہ اللہ پاک سے خیر طلب کرنا ھے جو ہر چھوٹے بڑے کام میں طلب کرنی چاہئے ، اپنی زبان میں ہی اللہ پاک سے مانگنا چاہئے کہ میرے مولا اس کام کا انجام اچھا ھو ، تو شر میں سے خیر اور خیر میں سے شر برآمد کر سکتا ھے ، اس معاملے میں ہماری لا علمی ایک حقیقت ہے ،ھم اچھے کی نیت سے کوئی برا فیصلہ بھی کر لیتے ہیں ، دعا کے بعد اللہ پر توکل کر لیں تو دل کو تسلی اور اطمینان ھو جاتا ھے ، یہ سب اپنی ذات کے لئے تو کیا جا سکتا ھے مگر جس معاملے میں دوسروں کی زندگیاں جڑی ھوں ، اس معاملے میں حکم مشورے کا دیا گیا ھے ، اپنی اولاد سے مشورہ کریں بیوی سے کریں ،بچوں کے ننھیال سے بھی کریں ، اپنے والدین سے بھی کریں اور کسی اور تجربے کار سے بھی کر لیں ـ

یہ استخارہ اب بالکل ہندو مذھب کی کنڈلی نکالنے کی کاپی بن کر رہ گیا ہے ،کنڈلی نہیں ملی یا استخارہ ٹھیک نہیں آیا ،، ایک ہی سکے کے دو رُخ بن گئے ہیں ـ
رسول اللہﷺ کے دور میں کتنے صحابہ کی شادیاں استخارے کے ذریعے ھوئی ؟ کوئی ایک شادی ہی بتا دیجئے کہ جو استخارے کی بنیاد پر قبول یا رد کی گئ ہو ؟ کوئی ایک روایت کو پکڑ کر پوری استخارہ انڈسٹری قائم کر لی اور قرآن کے مشورے کے حکم کو معطل کر دیا گیا ـ
مولوی عبدالعزیز فرماتے ھیں کہ ان کا استخارہ ٹھیک نہیں آ رھا جس کی وجہ سے وہ ضمانت نہیں کرا رھے ( کیونکہ خواب میں وھی فرشتہ آ رھا ھے جس نے پہلے استخارے میں برقع پہننے کا مشورہ دیا تھا )،، سوچتا ہوں ججز کو بھی اب استخارہ کر کے ضمانت لینا اور دینا چاہئے ،، یہانتک مذاق کیا گیا کہ لاپتہ افراد یعنی مسنگ پرسنز کے لئے بنائے گئے کمیشن میں بھی جسٹس غوث نے لواحقین سے باقاعدہ سوال کیا کہ آپ نے اس بارے میں استخارہ کیا کہ آپ کے گمشدہ رشتے دار زندہ ہیں یا مر چکے ہیں ؟
۔ ان کے شوہر محمد علی کو 3 سال قبل سفید ڈبل کیبن میں سوار اہلکاروں نے سینٹرل جیل کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔
اپنے شوہر کی گمشدگی کی تفصیلات بیان کیں اور بتایا کہ ان کے شوہر محمد علی کو 3 سال قبل سفید ڈبل کیبن میں سوار اہلکاروں نے سینٹرل جیل کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔

لاپتہ محمد علی کی بیگم افیشن نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکا کو اپنے شوہر کی گمشدگی کی تفصیلات بیان کیں اوربتایا کہ وہ حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کے بارے میں بنائے گئے کمیشن میں پیش ہوئے تھے، جہاں جسٹس ریٹائرڈ غوث محمد نے پوچھا کہ آپ نے ہپستالوں، جیل اور ایدھی ہوم سے معلوم کرلیا ہم نے بتایا کہ سب جگہ معلوم کرچکے ہیں۔

’جسٹس غوث محمد نے کہا کہ آپ نے استخارہ کرایا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں کرایا ہے، انھوں نے پوچھا کہ اس میں کیا آیا ہے، میں نے بتایا کہ وہ زندہ ہیں تو انھوں نے کہا کہ دعا کریں میں بھی صرف دعا کرسکتا ہوں۔‘

یہی معاملہ نظرِ بد کا بھی ھے رسول اللہ ﷺ کی 63 سالہ زندگی میں مجرد ایک واقعہ اور 144000 صحابہ میں سے صرف ایک بندے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی بنیاد پر، جس کی حقیقت بھی مبہم ہے ھر گھر میں توھمات کی پوری کاٹیج انڈسٹری لگا لی گئ ھے اور جو جتنا دیندار ہے اتنا ہی توھم پرست ہے ، ان توھمات کی جڑیں ہمارے ھندو بیک گراؤنڈ کے ساتھ جڑی ہیں شریعت کے ساتھ نہیں ، شریعت کے مطابق قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا نص ھے ، کہ ھمارے ساتھ گزرنے والا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اللہ پاک کے لئے ایکشن ری پلے کی حیثیت رکھتا ھے کسی کی نظر کچھ نہیں کرتی ، کہا جاتا ھے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں بلندی ہمیشہ سطح سمندر کی پستی سے ناپی جاتی ھے اور دن کو رات سے پہچانا جاتا ھے ۔ آپ کسی ھندو یا سکھ کے پاس ایک گھنٹہ بیٹھ جائیں یا ایک آدھ ساؤتھ انڈین فلم دیکھ لیں آپ کو بخوبی اندازہ ھو جائے گا کہ ھمارے توھمات کی اساس ھندو ہے ،اسلامی ھر گز نہیں ہے ،، نظر لگنا اگر اسی قدر کارگر ہے تو انگریز تو ایک بھی زندہ نہیں رھنا چاہئے اور گوریاں اور ان کے موتیوں کی طرح بچے تو لولے لنگڑے اور کوڑی و اپائج ھونے چاہیئں ،، مگر وہ لوگ بالکل بےخوف ہیں اور ہم تھرتھر کانپتے پھرتے ہیں ، نظر کے ڈر سے مکان پر کالی ھانڈی ھندو رکھتے ہیں ، اپنی گاڑیوں کے ساتھ کالے پراندے اور جوتے بھی وہ لٹکاتے ہیں ـ

قاری محمد حںیف ڈار بقلم خود

سورس