ھم کو تسلیم کر ھی لینا چاھئے کہ ھماری جہادی پالیسی 1980 سے ھی غلط تھی ، جہاد کو پرائیویٹائز کر کے فوج نے بہت بڑا بلنڈر کیا تھا اور یہ اب بھی جاری ھے !
اگر جہاد وقت کی ضرورت تھی تو اس کے لئے اپنی فوج کو ھی سول لباس میں استعمال کر لینا چاھئے تھا ،، علماء بھی اس وقت حکومت کے ھاتھوں استعمال ھوئے اور مدارس کو مجاھدین بھرتی کرنے کا ھدف دیا گیا ،، لال مسجد میں تو رات دن قافلے اترا کرتے تھے ،، جن کی دیکھ بھال اور خور و نوش کی ذمہ دار آئی ایس آئی ھوا کرتی تھی ،، آئی ایس آئی کے بڑے بڑے ذمہ داران لال مسجد کے مجمعوں میں یوں سرِ عام گھوما کرتے تھے جیسے بس اسٹینڈ پر گنڈیریاں بیچنے والے پھرتے ھیں ،، آئی ایس آئی والوں کے پاس اتھارٹی تو ھوا کرتی تھی مگر ھاتھ چاٹنے والے مرید نہیں تھے ،، انہیں بڑا مزہ آتا جب مجمعے میں ان کی طرف ھاتھ اٹھا کر اشارے کئے جاتے تھے کہ فلاں جرنیل اور فلاں کرنیل اور لوگ دوڑ دوڑ کر جھک جھک کر ان کے ھاتھ چومتے اور ان کو بدر میں نازل ھونے والے فرشتے سمجھتے !
ادھر مولاناؤں کے پاس آخرت کے وعدے تو تھے مگر دنیا میں ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا ،، جب ان کی ایک چٹ بھی ایم این اے اور ایم پی اے کی طرح چلنا شروع ھوئی اور بغیر اپؤائنٹ منٹ جرنلوں سے ملاقاتین ھونے لگیں تو ” فی الدنیا حسنۃ فی الآخرہ حسنہ ” کا نقشہ جم گیا ،، اب صورتحال یہ ھے کہ دل ڈھونڈتا ھے پھر وھی فرصت کے رات دن ،، بیٹھے رھیں تصورِ جاناں کیئے ھوئے !
جب محمد رسول اللہ ﷺ کو بغیر ریاست جہاد کی اجازت نہیں دی گئ تو پھر کسی کے لئے بھی کسی زمانے میں بھی بغیر ریاست کے حکم اور نفیرِ عام کے یہ جائز نہیں ، حکومت اگر جہاد کرنا چاھتی ھے تو اپنی فوج استعمال کرے اور اس ملک کے ساتھ کیئے گئے اپنے معاھدے اس کے منہ پر دے مارے ،، ملکوں کے ساتھ امن کے معاھدے کرنا پھر ان کے خلاف خفیہ کارروئیاں کرنا جہاد نہیں منافقت ھے ، اور منافقت کبھی مثبت نتائج نہیں دیتی !