اللہ پاک نے انسان کو بنایا ھے اور وہ ھی اس سے سب سے زیادہ واقف ھے، اس انسان کی خوبیوں ،خامیوں اور کمزوریوں سے وہ سب سے زیادہ واقف ھے، اللہ پاک نے اپنے دین میں مختلف احکامات کو انسان کی ان تمام صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر صادر فرمایا ھے اور اُن کی درجہ بندی کی ھے، نبی کریمﷺ نے قدم قدم پر اس بات کا اھتمام فرمایا ھے کہ ان احکامات کی ترتیب وھی رھے جو رب کی قائم کردہ ھے اور کم سے کم تقاضوں پر اکتفا فرمایا ھے،، آپ کو جب بھی اختیار دیا گیا ،آپ نے آسان طریق اختیار فرمایا،، مگر بعد میں وہ ترتیب قائم نہ رہ سکی اور دین کی ھر بات کو ڈنڈے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا، والدین نے بھی اولاد کو ھینڈل کرنے کے لئے ڈنڈے کو امرت دھارا سمجھا اور علماء نے بھی جتنا ممکن ھوا، ڈنڈے کے پریشر سے نیک تیار کرنے کا فارمولہ اپنایا،، ڈنڈے سے اولاد کو نیک بنانا ،دوسری گاڑی سے گاڑی کو باندھ کر اسٹارٹ کرنے والی بات ھے،، اولاد جونہی کالج یونیورسٹی پہنچتی ھے،نیکی کی گاڑی بیچ چوراھے کے کھڑی ھو جاتی ھے،، یہی حال معاشرے کا ھے، ڈنڈے کے ڈر سے لوگ باہر سے تو نیک بن جاتے ھیں، اور ڈنڈہ ھٹانے کے لئے حج ،عمرے پر بھی چلے جاتے ھیں ،مگر ابھی عمرے والی ٹنڈ کے بال بھی پوری طرح نہیں آتے کہ پھر وھی بےایمانی اور ھیرا پھیری کا چکر شروع ھو جاتا ھے،کیونکہ اگلے عمرے کے پیسے بھی جمع کرنے ھیں،، نتیجہ یہ ھے کہ مدینہ پورا مسجدِ نبوی میں سما گیا ھے اور اب مکہ بھی پورا مسجدِ حرم کا حصہ بننے جا رھا ھے، اور شیطان کو مارنے کے لئے مورچہ بھی 4 منزلہ ھو گیا ھےمگر حاجیوں کا سیلاب ھے کہ تھمنے میں نہیں آ رھا، مگر دوسری طرف دنیا کے کرپٹ ممالک میں پہلی دس پوزیشنیں بھی مسلمان ممالک کے پاس ھیں ! یہ کھلا تضاد یا پیراڈوکس کیوں ھے؟ اس سب کے پیچھے ڈنڈا ھے،،پیار نہیں،، انسانی احساسات کو سمجھے بغیر انسان کو تیار کرنے والوں کی ناکامی ھے،، انسان کے اندر ایک حس ھے،سینس آف اچیومنٹ،، یہ حس جب مطمئن نہ ھو تو انسان یاس اور ڈیپریشن کا شکار ھو جاتا ھے، اللہ پاک نے صرف چند چیزیں فرض کی ھیں،ان کا تعلق ایمان کے ساتھ ھے، اور کچھ چیزیں نبیﷺ کے ذریعے سنت و نوافل بنائی ھیں ،جن کا تعلق محبت کے ساتھ ھے،،محبت جو ایمان جزوِ اول ھے،، جس کا دوسرا جزو ذُل یا مٹ جانا ھے ،گویا تذلل محبت کا عملی ثبوت ھے،ایمان کے دو جزو”غایۃَالحب مع غایۃَ الذلِۜ والخشوع ھے،، انتہا درجے کی محبت کا ثبوت ،انتہا درجے کا تذلل ھے،جو پلٹ کر کیوں کہتا ھی نہیں ! بلکہ جیسے محبوب کہتا یا کرتا ھے ،وہ کرتا چلا جاتا ھے، فرائض کا اھتمام ایمان کو ثابت کرتا ھے تو سنت کا اھتمام محبت کو ثابت کرتا ھے،کیونکہ محبوب کی پسند جب تک آپکی پسند نہ بن جائے ،آپکی محبت ناقص ھے، نبی کریم ﷺ اللہ کے محبوب ھیں تو اسی وسیلے سے ھمارے محبوب ھیں ، یہی ایک چیز ھمارے اور رب کے درمیان مشترک ھے کہ ھمارا محبوب ایک ھے،،ھمارے اور رب کے درمیان نقطہ اتحاد ھی مصطفیﷺ ھیں، اس کے علاوہ ھماری کوئی چیز اللہ سے نہیں ملتی،، اب اگر سنت کو بھی ڈنڈے کے زور سے کروانے کا رجحان پروان چڑھے گا تو چُوری کھانے والے اور خون دینے والے محبوب میں فرق کیسے ھو گا؟ وہ فرق جو مصطفیﷺ اور ربِ مصطفی ﷺ دونوں رکھنا چاھتے ھیں !! آپ تراویح میں چوتھے دن نہیں نکلے ،صحابہؓ کے بار بار کھنگورے مارنے اور نقلی کھانسنے کے باوجود نہیں نکلے اور فجر کی نماز کے بعد فرمایا ” میں تمہارا کھنگارنا اور کھانسنا سُن رھا تھا،، مگر میری چھٹی حس کہہ رھی تھی کہ اگر میں آج نکلا تو یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی،،اور پھر تم عاجز آ جاؤ گے،یعنی پھر پیار کی بجائے ڈنڈے کے ڈر سے پڑھا کرو گے ،، مگر جس خدشے سے نبیﷺ چوتھی رات کو نہ نکلے تھے کہ تراویح فرض ھو جائے گی،وہ کام تو ھو کر رھا،، اللہ نے فرض نہ کی علماء نے کر دی ،، امت پر لاد تو دی گئی؟ نبیﷺ کی وہ احتیاط تو کام نہ آئی ؟ جب آپ کسی سے سنت کے ترک یا تاخیر پر اتنی سختی سے بازپُرس کرتے ھیں،جتنی فرض کے ترک کرنے پر کرنی چاھئے تو آپ کا رویہ غیر فرض کو فرض بنا دیتا ھے،، جب آپ بچے کو جماعت کے ترک کرنے پر اتنی گالیاں دیتے ھیں اتنی پٹائی کرتے ھیں ،اتنا شدید ردعمل دیتے ھیں،جتنا نماز چھوڑنے یا شراب پینے پر دینا چاھئے تو آپ اس کے لئے بڑے گناہ کا راستہ کھول دیتے ھیں،، اگر کوئی کسی دن 20 تراویح پوری نہیں بھی پڑھتا یا جماعت سے نہیں پڑھتا یا گھر پڑھ لیتا ھے تو کوئی بات نہیں ،اس کو فرض مت بنائیں،، فرض کی ادائیگی کے بعد جو بھی نفلی عبادت ھے ،جتنی بھی ھے اُس کا تعلق انسان کے سینس آف اچیومنٹ کے ساتھ ھوتا ھے،کہ اللہ نے تو اتنا کہا تھا،،میں نے پیار میں تھوڑا زیادہ کر دیا ،یہ میری طرف سے اللہ کے لئے ،،یا سنت ھے تو نبیﷺ کے لئے گفٹ ھو گیا،، یہ سینس انسان میں نیکی کے شعلے کو مسلسل جلا کر رکھتا ھے،دوسری جانب جبر کیا کرتا ھے اس کی عملی مثال میں آپ کو گھر سے دیتا ھوں،1978 کی بات ھے،ھمیں بلدیہ زراعت سے میلن جام یعنی تربوز کا جام ڈبوں کی صورت میں ملتا تھا،، گھر میں ڈبوں کا ڈھیر لگا رھتا تھا، میرا چھوٹا بھائی ایک ڈبہ کھولتا اور اس میں سے تھوڑا کھا کر دوسرا ڈبہ کھول لیتا،اسطرح گھر میں کھلے ڈبوں کا اسٹاک بن جاتا،،والد صاحب نے اس کو سمجھایا کہ ایک ڈبہ کھولو،اس کو ختم کر کے پھر دوسرا ڈبہ کھولو، مگر اس نے اپنی روٹین جاری رکھی، آخر ایک دن بزرگ جلال میں اگئے، ایک تھالی میں 3 یا 4 ڈبے کھول کے ڈالے اور اسے کہا کہ آج پیٹ بھر کے کھا لو،یہ سارا جام ختم کرنا ھے اور خود راجہ چپل لے کر اس کے سر پر کھڑے ھو گئے،، اس بیچارے نے تھوڑی
دیر تو رغبت سے کھایا ،،پھر چہرے پر کراھت کے آثار نمایاں ھوئے، اور آخر کار اس طرح قے شروع ھوئی کہ رُکنے کا نام نہیں لے رھی تھی،ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑا،،مگر اس کا نفسیاتی اثر یہ ھوا کہ آج بھی میلن جام کا ڈبہ دیکھ کر اس کو قے ھو جاتی ھے،، زبردستی کے دین کا نفسیاتی اثر بھی کچھ ایسا ھی ھوتا ھے،، سنت میں جبر، فرائض کے خلاف بھی بغاوت کا مادہ پیدا کر دیتا ھے، اور اکثر مذھبی گھرانوں کا المیہ یہی ھے کہ ان کے بچے بیچ چوراھے کے قے کر دیتے ھیں،، میں داڑھی کو بھی اسی طور پر محبت کی نشانی کی حد تک سمجھتا ھوں، اور کسی کی نیکی کو اسکی داڑھی سے نہیں ناپتا اور ماپتا،اگر میں داڑھی کی سنت میں کسی سے اگے ھونگا تو کوئی بغیر داڑھی والا فرائض میں مجھ سے آگے ھو سکتا ھے ،، مگر جو داڑھی رکھتا ھے میں اس سے پھر یہی توقع رکھتا ھوں کہ اس داڑھی پیچھے کچھ کردار بھی ھو گا،،، داڑھی مثال شارکٹ کی سی ھے اور آپ کا چہرہ آپ کا ڈیسک ٹاپ ھے،،شارکٹ کا مقصد یہ ھی ھوتا ھے کہ ڈبل کلک پر پروگرام اوپن ھو گا،،مگر بعض دفعہ انسان پروگرام تو اَن اِنسٹال کر دیتا ھے،مگر شارٹ کٹ ڈیسک ٹاپ پر موجود ھوتا ھے،، اور ڈبل کلک پر کچھ بھی نہیں کُھلتا یا چلتا،، جن کے اندر کردار کا پروگرام نہیں ھوتا ،اُن کو طواف کے سات کلک پر بھی فائل ناٹ فاونڈ کا جواب ھی ملتا ھے