قرآنِ حکیم میں انہی انبیاء کا ذکر ہے جن سے اس خطے کے لوگ واقف تھے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں اور کہیں رسول یا انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ، قرآن خود اعلان کرتا ہے کہ و ان من قریۃ الا خلا فیھا نذیر، کوئی بستی ایسی نہیں گزری جس میں نذیر مبعوث نہ کیا گیا ہو ،، جن چار جوڑوں یا آٹھ جانوروں کا ذکر قرآن میں ہے ، وہ قربانی والے جانوروں کے ضمن میں نہیں ہے بلکہ ان سے متعلق مشرکین مکہ میں طرح طرح کی توھمات اور غیر عقلی حلتیں اور حرمتیں اختیار کر رکھیں تھیں اور یہی موضوع یہاں زیر بحث ہے کیونکہ بہیمہ کی یہی اقسام یعنی گائے بیل ، بھیڑ ،دنبہ، بکرا بکری اور اونٹ اونٹنی بتوں پر چڑھاوے کے طور پر چڑھائے جاتے تھے ، ان کا ذکر کر کے سوال کیا گیا ہے کہ ان میں سے کونسی قسم یا کونسی جنس نر یا مادہ یا جو ان کے پیٹ کا بچہ ہے ، اللہ پاک نے حرام فرمایا ہے ؟، اس کی دلیل پیش کرو ۔ جب عرب بھینس سے واقف ہی نہیں تھے تو رسول اللہ ﷺ یا خلفائے راشدین کا اس کو قربان کرنا بھی ناممکن تھا ، یہ کوئی دلیل نہیں کہ رسول اللہ ﷺ یا خلفائے راشدین نے کیوں قربانی نہیں کی ،،
جب ایران فتح ہوا تو عربوں کے ہاتھ بھینس آئی جس کو گاؤمیش یعنی گائے کی خالہ کہا جاتا تھا ، عربوں نے گاؤکو جاؤ اور میش کو سین میں تبدیل کر کے جاموس کر لیا ایسے بہت سارے لفاظ فارسی سے عربی میں معرب ہوئے ،، ایک صاحب کہتے ہیں کہ قربانی کے لئے خوبصورت جانور پیش کرنا چاہیئے بھینس کوئی خوبصورت ہے ؟ عرض کیا کہ آپ کی شکل بھی اس قدر خوفناک ہے کہ دیکھ کر بچے ماں کی گود میں دبک جاتے ہیں ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انسان نہیں ہیں ؛؛سارا سال کٹے کھا کھا کر قربانی کے موقعے پر اودھم مچا دیتے ہیں ـ
قاری حنیف ڈار