کیا موسی علیہ السلام مسحور تھے ؟
رسول اللہ ﷺ پر مسحور ہونے کا الزام لگانے والے ایک دلیل پیش کرتے ہیں کہ موسی علیہ السلام پر جادو ہونا آپ تسلیم کرتے ہیں ناں ؟ اور اگر ایک نبی پر ہو سکتا ھے تو دوسرے نبی پر بھی ھو سکتا ہے ،، دوسرا وہ کہتے ہیں کہ فرعون نے بھی موسی علیہ السلام کو مسحور کہا اور اللہ نے بھی مسحور کہا ،،
سب سے پہلی بات کہ اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو بالکل مسحور نہیں فرمایا کوئی ایسی آیت پیش کی جاوے ،، دوسری بات جب فرعون نے موسی علیہ السلام کو مسحور کہا تو موسی علیہ السلام نے اس الزام کو تسلیم نہیں کیا اور فرعون کو ٹکا کر جواب دیا ،،
[وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا (101ـ بنی اسرائیل )
میرا گمان ہے کہ اے موسی تجھ پر سحر کر دیا گیا ہے ،،
اگر موسی علیہ السلام پر سحر کیا گیا ہوتا تو وہ اقرار کر لیتے جیسا کہ جب ان سے فرعون نے کہا کہ ہم نے تجھے اپنے خاندان میں چھوٹے سے بچے کی حالت میں پالا اور تم نے وہ کارنامہ کیا جو کیا اور تُو احسان فراموشوں میں سے ہے ، تو موسی علیہ السلام نے قتل کا اعتراف کیا کہ فعلتھا اذا انا من الضالین ،، میں بالکل کیا مگر میں اس وقت ہدایت یافتہ نہ تھا ،، پھر احسان فراموشی کے الزام کا جواب دیا کہ ، تم لوگوں کا یہی احسان کافی نہیں کہ تم نے لوگوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا ،، یعنی مجھے میری ماں سے جدا کر کے اپنے گھر پالنے کو احسان کہہ رہے ، یہ تو جرم ہے احسان نہیں ـ
موسی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ،
فرعون کی طرف سے موسی علیہ السلام کو چیلنج دے کر جادوگروں کو بلوایا گیا تھا کہ اگر تم غالب آ گئے تو ہم تمہارے دین پر آ جائیں گے اور اگر جادوگر غالب آ گئے تو تم سب کو ہمارے دین پر آنا ہو گا ـ یہ نہایت نپی تلی ایک چال تھی ، جو باقاعدہ شوری میں بحث مباحثے کے بعد سوچی گئ تھی ،،ان کا یقین تھا کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہیں تو جادوگروں کا جادو ان کی آنکھوں پر اثر نہیں کرے گا ،[ کیونکہ اللہ پاک نے نبی کے گرد ایسا حفاظتی زون بنا دیا ہوتا ھے کہ ان کے دل و دماغ تک سوائے اللہ پاک کے اور کسی نیٹ ورک کا سگنل نہیں پہنچ پاتا ـ سورہ جن ] لہذا موسی علیہ السلام رسیوں کو جامد اور غیر متحرک دیکھیں گے ـ جبکہ عوام الناس رسیوں کو متحرک دیکھ رہے ہونگے ، اب موسی علیہ السلام فورا بیان دیں گے کہ رسیاں تو اسی طرح ساکت و جامد کھڑی ہیں ، جبکہ مجمع ان کو متحرک دیکھ رہا ھو گا اور موسی کے اس بیان کو کہ رسیاں ساکت ہیں جھوٹ سمجھے گا ،اس مقابلے میں جھوٹا ثابت ہونے کے بعد موسی علیہ السلام کے دعوئ رسالت کی حیثیت بھی ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہ رہتی ، یہ کوئی معمولی صورتحال نہیں تھی، اس کے لئے باقاعدہ عید کا دن مقرر کیا گیا تھا اور گاؤں گاؤں شہر شہر منادی کر کے پبلک کو اکٹھا کیا گیا تھا ـ اس سازش کو ناکام بنانے اور موسی علیہ السلام کو فوری بیان دینے سے روکنے کے لئے ہی اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو وہ دکھایا جو مجمع دیکھ رہا تھا کہ آنکھوں پہ کیئے جانے والے جادو کی وجہ سے لوگ ان رسیوں کو متحرک دیکھ رہے ہیں ، انھا بسحرھم تسعی ،، موسی علیہ السلام یہ منظر دیکھ کر ڈرے نہیں بلکہ ایک خدشے نے ان کے اندر سر اٹھایا فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی” اس خدشے میں مبتلا ہو گئے کہ عوام الناس میرے عصا کی زندگی اور جادوگروں کی رسیوں کے چلنے پھرنے میں فرق کیسے کریں گے ؟ اس خوف کا جواب اللہ پاک نے یہ دیا کہ آپ اس معاملے میں بالکل خوفزدہ نہ ہوں ، آپ ہی اعلی یعنی غالب رہیں گے ، بس آپ اپنا عصا پھینک دیں یہ عصا ان کے جھوٹ کو کھا جائے گا ، یہ جادوگروں کی ایک چال ہے ، اور جادوگر جب بھی [ نبی کے ] مقابلے پر آئے گا تو کامیاب نہیں ہو گا ـ ہمارے لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ عصا وہ سنپولیئے نگل گیا ،، اگر عصا سانپوں کو نگل جاتا تو دو ٹوک فیصلہ کبھی نہ ہو پاتا ، یہی گمان ہوتا کہ دونوں فریق جادوگر ہیں ، ایک کا جادو بڑا تھا جو دوسرے کے چھوٹے جادو کو نگل گیا ،، بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہی آئی ہے ، اس سے موسی علیہ السلام کی نبوت قطعی ثابت نہ ہوتی ،، عصا نے رسیاں نہیں کھائیں بلکہ ان پر کیا گیا جادو کھا لیا ، تلقف ما صنعوا ،، وہ نگل گیا جو انہوں نے کاریگری کی تھی ، یعنی جادو ،اور رسیاں اور ڈنڈے بےجان و غیر متحرک پڑے رہ گئے جبکہ موسی علیہ السلام کا اژدھا ابھی تک سب کو زندہ سلامت اور متحرک نظر آ رہا تھا ـ
عصا نے مجمعے کے درمیان چکر لگایا ، جن لوگوں کے سامنے سے وہ گزرتا، ان کی آنکھوں کی بندش کھُلتی جاتی اور ان کو جادوگروں کی رسیاں سانپ کی بجائے رسیاں اور ڈنڈے نظر آنا شروع ہو جاتے ،، سب مجمعے نے جب یہ منظر دیکھا تو سب سے پہلے ماہرین فن جادوگر ہی سجدے میں پڑے کہ آمنا برب العالمین ،، ربِ موسی و ھارون ـ
اس پر فرعون نے اپنے وعدے کے مطابق ایمان لانے کی بجائے ٹیکنیکل پؤائنٹ اٹھا دیا کہ ، نتیجے کا سرکاری طور پر اعلان کیئے جانے سے پہلے جادوگروں کا سجدے میں چلے جانا اصل میں رگنگ اور دھاندلی ہے ،، اس نے فورا جادوگروں کے لئے دردناک موت کا سامان کیا تا کہ مجمعے کو ایمان قبول کرنے سے ڈرا کر روک دیا جائے ،، جبکہ جادگروں کے صبر نے اس کی اس چال کو بھی ناکام ثابت کر دیا ـ
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَىٰ (65) قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ (66) فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ (67) قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ (68) وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ (69) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ (70) قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ (71) قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (72)
رسول اللہ ﷺ پر جادو کی کہانی ـ
دوسری جانب منافقین کی جانب سے رسول اللہ ﷺ پر کیا جانے والا جادو بالکل ایک الگ سیناریو ہے ،، یہاں ایک یہودی لڑکا رسول اللہ ﷺ کے گھر کا کام کاج کرنے والا ہے جو کنگھی اور بال لے کر جادو کرتا ھے اور رسول اللہ ﷺ کو چھ ماہ کے لئے ذھنی طور پر اپنے قبضے میں کر لیتا ھے[ روایتِ عائشہؓ] ، رسول اللہ جو کہتے ہیں کہ میں نے کیا ہے وہ کیا نہ ہوتا، بیویوں کے پاس گئے نہ ہوتے اور خیال آتا کہ ہو آیا ہوں ، مسکرانا بھول گئے ،اور نچڑ کر رہ گئے وغیرہ وغیرہ یہ نبی ﷺ کے مقابلے میں جادوگر کی فتح تھی ، ہر سوچنے والا اس کیفیت کا اپنا اپنا تاثر لے گا ،واللہ اعلم چھ ماہ کے دوران باقی کیا کچھ مغالطے آئے ہونگے ، پھر جادو ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ یہودی لڑکا لبید بن اعصم رسول اللہ ﷺ کے گھر بےروک و ٹوک آتا جاتا رھا مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کے منہ سے مکھی بھی نہیں اڑائی ،،
اس روایت کا پہلا کردار ھشام ابن عروہ ہے، جو 61ھ میں پیدا ہوا ، اس کی پیدائش سے پہلے مدینے میں کسی کو رسول اللہ ﷺ پر جادو کی خبر نہیں تھی ، اور وہ سارے بخاری کی اس حدیث پر ایمان لائے بغیر فوت ہو گئے تھے ،، ھشام جوان ھو گیا ، تب بھی مدینے والے رسول اللہ پر جادو کی کہانی پر ایمان لائے بغیر فوت ہو گئے ، پتہ نہیں ان بیچاروں کا کیا بنے گا ،، ھشام عراق جاتا ھے مگر کسی کو کچھ نہیں بتاتا کیونکہ اس وقت اس کا دماغ کام کرتا تھا ،، دوسری بار گیا تو تدلیس کرنے لگ گیا، اپنے باپ کے نام لے کر دوسروں کی روایتیں بیان کرنے لگ گیا ،، پھر تیسری بار جب گیا تو بالکل ہی مت ماری گئ تھی ، یہ جادو والی روایت اس نے 140ھ میں عراق میں اپنے باپ کے حوالے سے سنائی حالانکہ وہ اس وقت تک مدلس مشہور ہو چکا تھا کہ روایت کا حقیقی راوی چھوڑ کر کسی اور کی طرف منسوب کر دیتا ہے، اس کے دماغ کے سٹھیانے کی دلیل خود اس کا اپنی بیوی فاطمہ بنت المنذر کے متعلق دیا گیا یہ بیان ہے کہ میں نے بھی فاطمہ سے نو سال کی عمر میں شادی کی تھی ،، حالانکہ پہلے وہ خود ہی یہ بیان دے چکے تھے کہ ان کی بیوی فاطمہ ان سے ۱۳ سال بڑی تھی ۔۔ جس نے حضرت اسماء بنت ابکرؓ یعنی اپنی دادی سے روایت کیا ہے اور ام المومنین ام سلمہؓ سے بھی ،، گویا جب ھشام کی بیوی فاطمہ نو سال کی تھی تب ھشام کے پیدا ہونے میں بھی چار سال باقی تھے ،
یہ روایت باقی راویوں نے اسی ھشام سے لی اور پھر اپنے اپنے علاقے میں جادو سے متعلق جتنے طریقے تھے یعنی پتلا بنانا ، اس میں سوئیاں چبھونا ،، آنت میں لپیٹنا وغیرہ وہ سب مسالا ڈال کر بیان کرنا شروع کر دیا ،، ڈیڑھ سو سال تک مدینے میں کسی کو رسول اللہ پر جادو ہونے کی کوئی خبر نہ تھی ،، ڈیڑھ سو سال تک رسول اللہ ﷺ کی چھ سالہ بچی سے شادی کی کوئی خبر نہ تھی ، ڈیڑھ سو سال تک امتِ مسلمہ حضرت عائشہؓ کے رسول اللہ ﷺ کے حجرے میں گڑیوں کے بت بنا کر کھیلنے سے بےخبر تھی ،،،
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارا حشر انہیں ڈیڑھ سو سالہ مسلمانوں کے ساتھ کرے جو ان خرافات کو سنے اور ان کو وحی تسلیم کیئے بغیر فوت ہو گئے ـ آمین یا رب العالمین
قاری محمد حنیف ڈار