اب مشاجراتِ صحابہ پہ کفِ لسان ممکن ہی نہیں ،، آپ موجودہ معاملات میں کفِ لسان کیوں نہیں کرتے ؟ کیا اس وقت کے بارے میں کفِ لسان ثواب ہے اور آج والوں کے کپڑے اتارنا ثواب ہے ؟ منکر ہر زمانے میں ہر شخص کے لئے منکر ہی تھا، کسی ایلیٹ کلاس کے لئے اس کو معروف بنا کر قرآن و سنت کی بیخ کنی نہیں کی جا سکتی ہے ، ابن آدم کا قتل اس وقت بھی منکر تھا اگرچہ نبی کے بیٹے نے کیا تھا اور آج بھی منکر ہے ، پھر اس پر قرآن نے کف لسان کا حکم لگانے کی بجائے اس کو قیامت تک پڑھنے پر کیوں لگا دیا ؟ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ،، المائدہ 27ـ
شاعر نے سچ کہا ہے کہ؎
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا ، بات پہنچی تیری جوانی تک ِ
ان مقدس ھستیوں کو خود اپنے مقام کا خیال کرنا چاہئے تھا کہ وہ امت کے مقتدا تھے ، یہی بات ان کو عمر فاروقؓ بار بار سمجھاتے تھے، مگر انہوں نے عام انسانوں کی طرح behave کیا ،اور اب قیامت تک وہ زیرِ بحث رہیں گے ، مستقبل کا آنے والا دور مزید بےباک ہو گا ، اب معاملات کو کارپٹ کے نیچے نہیں دبایا جا سکتا، ان حضرات کے بارے میں حساسیت کو ختم کرنا ہو گا اور ان کو امت کے لئے اوپن کرنا ہو گا ـ تقدس ذاتی معاملہ ہوتا ھے کسی کا رائٹ نہیں کہ اس کے قتل کو نیکی کہا جائے تبھی وہ نیک ثابت ہو گا ،، اس کی امثال اسوہ رسول ﷺ میں موجود ہیں ، جب حضرت اسامہ بن زیدؓ سے ایک جنگ میں ایک ایسا کافر مارا گیا جس نے درجنوں صحابہؓ کو شھید کر دیا تھا اور پھر آخرکار حضرت اسامہ کی تلوار یا نیزے کے آگے چڑھ گیا تو فورا کلمہ پڑھ لیا ، ایک عام فہم آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ھے کہ یہ کلمہ جنگی چال کے طور پر پڑھا گیا تھا،اور تلوار کی زد سے نکلتے ہی اس نے دوبارہ مار دھاڑ شروع کر دینی تھی،لہذا حضرت اسامہؓ نے اس چال کا شکار بننے کی بجائے اس کا سر اڑا دیا، رسول اللہ ﷺ کو جب پتہ چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کلمہ سن لیا تھا تو تمہاری تلوار کو رک جانا چاہئے تھا ، مجھے دل چیر کر دیکھنے کے لئے نہیں بھیجا گیا زبان پر اعتبار کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے ، حضرت اسامہؓ کی بار بار کی مغفرت کی درخواست کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی اور یہی فرماتے رہے کہ اسامہ جب کلمہ حشر میں استغاثہ لائے گا تو کیا جواب دو گے ؟ یہانتک کہ حضرت اسامہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خواہش کی کہ کاش میں آج مسلمان ہوا ہوتا اور یہ خون میرے دامن سے دُھل گیا ہوتا ،، پھر یہی کلمہ بےوقعت کیوں ہو جاتا ھے جب ہم رسول اللہﷺ کے دفاع میں دائیں بائیں لڑنے والے اور بدر و احد کے علاوہ بیعت رضوان والوں کو بےدردی سے شھید کرنے والے کو بھی جنت کی بشارت دیتے ہیں ، حشر میں سب سے پہلے خون کے فیصلے ہونگے اور یقینا صحابہ کے آپس کے قتال و کشت و خون کے فیصلے ہم سے پہلے ہونگے ، دیکھتا ہوں اس دن کون مائی کا لعل اٹھ کر اللہ کو یہ کہتا ہے کہ خبردار یہ بڑی مقدس ہستیاں ہیں ان کے کشت و خون کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا ، جب مشکوک مسلمان کے خون کی شفاعت رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں نہیں فرمائی اور اسامہ بن زیدؓ جیسے محب ابن محب کو کورا جواب دے دیا تو آخرت میں بھلا قاتلین کی شفاعت کیوں کریں گے ؟ من یعمل سوء یجز بہ ،ولا یجد لہ من دون اللہ ولیاً ولا نصیراِ جو برائی کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا اور اس کا نہ کوئی دوست ہو گا نہ مددگار ( النساء) اس لئے مدعی سست گواہ چست والا معاملہ نہ کیا جائے ـ یہ بھی رسول اللہ ﷺ کا ہی فرمان ہے کہ جس نے کسی ناحق خون میں ایک کلمے کی بھی مدد کی اللہ اس کو جھنم کا غوطہ لگا کر رہے گا ’’ اگرچہ وہ کوئی بھی ہو ‘‘ یہ کوئی بھی ہو والا حصہ بڑا معنی خیز ہے ـ