غزوہِ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شھید نہیں ہوئے تھے یہ کہانی بالکل غلط ہے،دانت توڑنا مثلہ کرنا ہے اور اللہ کے کسی رسول کے چہرہ مبارک کا مثلہ کرنا ناممکن ہے، پھر ثنایا علیا کے شھید ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جہری نماز کی امامت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان دانتوں کے بغیر قرآن کی درست قرات ممکن نہیں۔ امام ابن سیرین کے سامنے کے دو دانت گرنے سے ٹوٹ گئے تھے اور اُنہوں نے ستائیس سال کی عمر میں امامت ترک کر دی تھی اسی عذر کی وجہ سے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصال کے دن سے ایک دن پہلے تک جماعت کرواتے رہے، پھر جس شخص کے سامنے کے دانت ٹوٹ جاتے ہیں اس کا چہرہ مسخ شدہ اور بدصورت ہو جاتا ہے۔ جبکہ غزوہِ احد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرنے والی ام المومنین فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ سے جب سامنے کے دانت نظر آتے تو ان میں سے روشنی پھوٹتی نظر آتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کے دندانِ مبارک میں گیپ تھا جو بہت خوبصورت لگتا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام دانت آخر تک اسی طرح سلامت رہے جبکہ زلفیں اور ریش مبارک کالی رات کی طرح سیاہ تھی، صرف داڑھی بچہ ( جو نچلے ہونٹ کے نیچے کے بال ہوتے ہیں) ان میں بیس بال سفید تھے۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تھی کہ اے اللہ تو مجھے جب تک زندہ رکھے میری سماعت، بصارت، گویائی اور دیگر عطا کردہ نعمتوں کے ساتھ زندہ رکھنا۔
قاری حنیف ڈار عفی اللہ عنہ و عافاہ۔