وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (النساءـ 64)
. جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس وقت کے صحابہؓ کرام کی طرح ہم پر بھی فرض ہے تو پھر اس آیت کے اگلے حصے کے مطابق ہمیں نبی کریم ﷺ سے اپنے گناہوں پر ان سے گزارش کرنے کی سہولت بھی موجود ہے کہ وہ ہمارے لئے اللہ پاک سے بات کریں ، سوائے اس امت کے ہر امت میں ان کا نبی موجود رہا ہے جو ان کو اگلے نبی یا رسول کے حوالے کر کے جاتا رہا ہے ، عیسی علیہ السلام تک یہی سلسلہ رہا ،عیسی علیہ السلام امت کو آنے والے نبی کی بشارت اور اطاعت کو حکم دے کر تشریف لے گئے ، اب جبکہ ہمارے نبی آخری نبی ہیں تو ہمیں آخر تک اپنے نبی ﷺ سے رابطے کی سہولت حاصل ہے ، یہ اللہ کی سنت رہی ہے امتوں کے معاملے میں ، موسی علیہ السلام کی قوم نے خدا کو دیکھ کر ماننے کی شرط رکھی ، اللہ پاک کے قہر کی بجلی گرنے کے باوجود ان کے نبی نے ان کے لئے سفارش کی ،، نبئ کریم ﷺ سے رابطے کو ہر صاحب مزار پر لاگو نہیں کیا جا سکتا یہانتک کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہوتا یہ صرف امت کا اپنے نبی پر حق ہے اور نبی کا اپنی امت کے معاملے میں فرضِ منصبی ،، اے کاش کہ جب یہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ ﷺ کے پاس آ جاتے اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ﷺ بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقینا اللہ کو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا پاتے ـ ایں قدر گفتیم باقی فکر کن،
سورہ الجمعہ میں بشارت دی کہ "و آخرین منھم لما یلحقوا بھم و ھو العزیز الحکیم، ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ۔ واللہ ذوالفضل العظیم۔ اور بعد والے بھی انہی میں شامل ہیں اگرچہ وہ ان سے ملے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاھے عطا فرما دے،اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
نبئ کریم ﷺ سے متعلق یہی میرا عقیدہ ہے ـ