عہدِ الست ایک ایپ کی طرح انسان میں انسٹال ہے، جب بھی کوئی اللہ بارے سوچتا ہے تو وہ اوپن ہو جاتی ھے اور انسان کو غیر محسوس طریقے سے گائیڈ کرتی ھے ، یہانتک کہ وہ حقیقت تک پہنچ جاتا ھے ، یہی وہ مدد اور نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ پاک نے اپنی طرف چلنے والوں سے کیا ہے، والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ـ اگر کوئی اللہ کی طرف جانا ہی نہ چاھے تو پھر بےشک قرآن اس کی مادری زبان میں ،اس کےقبیلے کی زبان میں نازل ہو تب بھی مسلمان نہیں ہوتا، ابو لہب اور ابو جہل اس کی مثالیں ہیں ، عہد الست ایپ خلوص نیت کے ساتھ مشروط ہے ،،
عہدِ الست !
سب سے پہلے اللہ کا علم ہے جس میں میرے، آپ کے اور آدم علیہ السلام سمیت سب ہمیشہ سے موجود ہیں ، اللہ پاک مجھے اور آپ کو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے بھی اسی طرح جانتا تھا جس طرح مرنے کے بعد بھی ہم اس کے علم میں زندہ ہی ہونگے اگرچہ لوگوں کے لئے مر گئے ہونگے ، یعنی ہم اپنے پیدا ھونے سے پہلے بھی موت سمیت اللہ کے علم میں موجود تھے، کس دور میں پیدا ھونا ہے ، کب مرنا ہے یہ سب طے شدہ تھا ،، اس کے بعد امر کا مرحلہ آتا ہے کہ اللہ پاک اپنے علم کو امر کے ذریعے وجود بخشتا ہے ، آدم کو وجود دیا گیا اور یہ سب سے پہلے عالمِ مثال میں ہوا ، یعنی آدم علیہ السلام کی Animated تصویر عالم مثال میں نمودار ہوئی کہ کیا شکل و صورت ہو گی وہیں ہمیں ایک دوسرے کی پشت سے نکالا گیا ہر شخص کا اپنا شجرہ نسب یعنی میرے پردادا سے دادا نکلے دادا جی سے والد صاحب نکلے اور والد صاحب سے میں نکلا مجھے قاسم نکلا وغیرہ وغیرہ آدم علیہ السلام سے لے کر میری نسل میں آخری پیدا ھونے والا انسان ہم سب ایک ہی بیرک میں ہیں جس کو حدیث میں جنود مجندہ ،، گچھوں کے گھچے ،، یا جس طرح پرات میں آٹا گندھا ہوا ہوتا ہے ،عورت اس میں سے ایک پیڑا لیتی ھے اور روٹی کو وجود اور شکل عطا کر دیتی ہے، کوئی ٹیڑھی میڑھی کوئی گول والی ، اسی طرح ہم ماں باپ نے اس پرات میں سے لے کر ایک شکل دے دی وہی شکل جو پہلے سے طے تھی ،، یہ سب پہلے عالمِ مثال میں ڈسپلے کیا گیا وہی وقت تھا عہدِ الست کا ،، ہم دوبارہ بھی عالم ِ مثال سے پرنٹ کمانڈ کے تحت ری پرنٹ یا ری برتھ ھونگے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، کیا وہ ان کی مثل بنانے پر قادر نہیں [
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (یاسین 81) کیوں نہیں جبکہ وہ ماہر تخلیق کرنے والا ہے ،، اب رہ گئ یہ بات کہ ہم کو وہ عہد یاد کیوں نہیں ؟ تو گزارش ہے کہ اگر وہ یاد رہتا تھا رسولوں کی کیا ضروررت تھی؟ فذکر انما انت مذکر ،، یاد کرایئے بےشک آپ یاد دہانی کرانے کے لئے بھیجے گئے ہیںَ اسی لئے وحی کو ذکر اور تذکیر یعنی Reminder کہا گیا ہے ، جس طرح کسی کی یاد داشت متأثر ھوتی ھے تو وہ بے دھیانی میں بہت سارے وہ کام کر جاتا ھے جن کا اسے شعور نہیں ہوتا ، اسی طرح اللہ سے کیئے گئے عہد کا ایک نقش ہمارے لا شعور میں موجود ہے چیک بک کی اس چھوٹی سلپ کی طرح جو چیک کٹنے کے بعد ثبوت کے طور پر چیک میں لگی رہ جاتی ہے ، اسی نقش کا کمال ہے کہ ہر ایک کو خدا کی تلاش و پیاس ہے، حقیقی تک نہ پہنچے تو کہیں نہ کہیں سر ٹیکے ہوئے ہے ،، قیامت کے دن فیصلے ہونگے کہ وہ اس تلاش میں کتنے مخلص تھے اور کتنی سعی فرمائی نیز ان کو کس نے بھٹکایا تھا ؟ یہی وجہ ہے کہ ہر مذھب کی عبادتگاہ کو تحفظ دیا گیا ہے کہ جو بھی وہاں پہنچا ہے اللہ کی تلاش کا مارا ہی پہنچا ہے ـ
کسی کا درخت کو پوجنا یا آگ اور پتھر کو پوجنا اسی طرح ھے جیسے کوئی پیاس سے گیلی مٹی چاٹنا شروع کر دے ،،گویا یہ تو ثبوت ھے کہ انسان کے اندر کتنی پیاس اور تلاش ھے اللہ کو پانے کی ، وہ اللہ جس کا عہدِ الست اسے کسی خدا کی تلاش کے لئے تڑپاتا ھے، جس کی تلاش میں وہ کبھی کسی درخت سے لپٹتا ھے تو کبھی آگ کے آگے لیٹتا ھے ، کوئی تو ھے جس کی اسے تلاش ھے ،، یہ کیسے ممکن ھے کہ مخلوق تو ھو مگر خالق کوئی نہ ھو ،صنعت تو موجود ھو مگر صانع نہ ھو
کتنی عجیب بات ھے ،بات بھی کچھ عجیب ھے !
جس نے دیا ھے دردِ دل ،،، وھی میرا طبیب ھے !