میرا معمول ھے کہ جمعہ والے دن محراب والے دروازے سے گھر آ کر پھر سڑک والے دروازے سے نکل کر مسجد کے اسٹڈی روم میں جاتا ھوں جہاں ایک گھنٹہ پبلک کے سوال اور ان کا جواب کا سلسلہ چلتا ھے !
جونہی میں گھر آتا تو میرا تین سال کا بیٹا ابراھیم آگے اپنے جوتے ھاتھ میں پکڑے تیار کھڑا ھوتا ھے کہ ابو کے ساتھ باھر جانا ھے، مجھے بھی اس کی روٹین کا اندازہ ھوتا ھے اور میں نظر بچا کر نکلنے کے چکر میں ھوتا ھوں ،،
ایک دن وہ صوفے پہ بیٹھا تھا کہ میں تیزی سے باھر کی جانب لپکا ،اور وہ ” تلی تلی ” یعنی چلیں چلیں کی آوازیں لگاتا میرے پیچھے لپکا ،، میں بالکل اسے ساتھ لے جانے کے موڈ میں نہیں تھا کہ اچانک وہ پھسل کر گرا ،مگر چوٹ کی پرواہ کیئے بغیر اٹھ کر میرے پیچھے دوڑا ،، مجھے اس کی یہ ادا مار گئ ، اتنا سخت گرنے کے باوجود میرا ساتھ اسے اتنا عزیز تھا کہ وہ اپنے درد کو بھی بھول گیا ، میں پلٹا اور اسے سینے سے لگا کر باھر نکلا ، میں نے بیساختہ کہا کہ میرے مولا پتہ نہیں کتنے جوتے اٹھائے تیرے پیچھے چلیں چلیں کی آوازیں دیتے چل رھے ھونگے ،، مگر تو بے نیاز ھے ، پتہ نہیں کتنے گر کر اٹھنے والے مصیبت زدوں کو سینے سے لگائے ھو گا جو اپنی مصیبت کے دکھوں کی پرواہ کیئے بغیر تیرے پیار میں تیرے پیچھے دوڑے چلے آ رھے ھونگے !