نیا سال مبارک ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے گھر،گھرانے اور برادری کا کوئی آدمی فوت نہیں ہو گا۔ موت کا تعلق سالوں کی برکت یا نحوست کے ساتھ نہیں جڑا ہوا، پیدا ہونا اور مرنا اللہ پاک کی اسکیم کا تسلسل ہے اس کو کسی کی دعائیں نہیں روک سکتیں،جو اپنی دعاؤں کو پوسٹڈ چیک سمجھتے ہیں وہ خود بھی مر جاتے ہیں۔ مشکلات اور مصائب اس امتحان کا نصاب ہیں جس امتحان اور ابتلاء کے لئے ہم پیدا کیئے گئے ہیں۔ الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم۔جس نے موت اور زندگی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے کئے ہیں تا کہ تمہیں بلوئے ۔ (جس طرح ہم مدھانی گھما کر دودھ بلوتے ہیں ) و نبلوکم بالشر والخیر فتنہ و الینا ترجعون”الانبیاء” اور ہم بلوئیں گے تمہیں برے اور اچھے احوال کے ساتھ آزمائش کے لئے،پھر تم ہمارے پاس لوٹائے جاؤ گے۔ اس لوٹنے کو کوئی روک نہیں سکتا جو ہمارے پیدا ہونے سے پہلے طے کر دیا گیا ہے۔
اچھے اور برے حالات کی مدھانی کو نہ کوئی مبارکباد روک سکتی ہے نہ کوئی سال ۔
اگر ماں یا باپ کی وفات پر انسان مشتعل ہو کر کہے کہ میرے ابا جی یا ماں جی کو اللہ نے کیوں مارا؟ اللہ ایسے بھی تو کر سکتا تھا،ویسے بھی تو کر سکتا تھا؟؟ مطلب اللہ ہی سب کچھ کرے آپ سے بس ایک صبر ہی نہیں ہو سکتا۔۔ آپ جو احسان چار سجدے کر کے اللہ پر چڑھا رہے ہیں اور اللہ کو آرڈر دینے کی پوزیشن تک پہنچ گئے ہیں، آپ انتقاماً،یا احتجاجاً یہ نمازیں چھوڑ بھی سکتے ہیں،بلکہ یہ دین بھی چھوڑ کر کسی مذھب میں بھی جا سکتے ہیں یا لا مذھب بھی ہو سکتے ہیں مگر موت سے پھر بھی مفر نہیں ہر مذھب والے اور ان کے والدین مرجاتے ہیں کسی مذھب میں خلود اور ہمیشگی نہیں ہے۔
قاری حنیف ڈار