1- جتنے لوگ رائیونڈ اجتماع میں جمع ہوتے ہیں اگر یہی لوگ اپنی سماجی اخلاقی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کریں تو پاکستان جنت نظیر بن جائے۔
2-جتنے لوگ ہر سال حج پر جاتے ہیں،اگر وہی سدھر جائیں تو سماج سدھر جائے۔
3- جس قدر امام اور خطیب ہیں اگر وہی اپنے قول و فعل کا تضاد ختم کر لیں تو پاکستان ریاست مدینہ بن جائے۔
4۔ جو دو لاکھ حفاظ اور لاکھوں علماء ہر سال معاشرے کی مین اسٹریم میں داخل ہوتے ہیں وہی صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں تو معاشرے کا سماجی سرطان ختم ہو جائے۔
مگر ان سارے نیک لوگوں کا بون میرو سماج کے بون میرو سے میچ نہیں کرتا لہذا معاشرے کا کینسر بھی ختم نہیں ہو رہا۔ ان سارے نیک لوگوں کا نیکی کا تصور ہی مسخ شدہ ہے، سماج بدکار لوگوں کی سے کم اور ان بانجھ نیک لوگوں کی وجہ سے زیادہ خراب ہے کیونکہ ان نیک لوگوں کی نیکی سماج کے لئے کاؤنٹر پروڈکٹیو ہے، انہوں نے بس نمازوں کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے۔حج کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے، حفظ کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے، اسی نیکی نے ان کو جھوٹ بولنے ، وعدہ خلافی کرنے، دوسروں کی زمین غصب کرنے, والدین کے اور اولاد و ازواج کے حقوق ادا نہ کرنے پر جریی کر رکھا ہے۔ ان کا پڑوسی نہ امن میں ہے نہ سکون میں ہے۔ ان کو پیشاب کا قطرہ نکلنے کی تو فکر ہے,مگر گلی کو صاف رکھنے کی کوئی فکر نہیں ،یہ روزانہ بالٹیاں بھرکر کچرہ باھر پھینکتے ہیں اور ان کے ضمیر میں کوئی خلش نہیں ہوتی کیونکہ یہ سب نیک ہیں۔ ان میں اٹھانوے فیصد چلے سہ روزے اور محلے کے گشت , اور آنے والے جماعتوں کی نصرت کے ساتھ ساتھ والدین کے نافرمان، بیویوں اور اولاد کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے اور اپنی یتیم بھتیجے بھتیجیوں کی زمین دبا لینے والے ہیں۔ ان کو دور لندن اور ٹورانٹو کے مسلمانوں کی فکر ہے مگر اپنے ہی گاؤں میں اپنی یتیم بھتیجی کی کوئی فکر نہیں کہ وہ کہاں سے کھا رہی ہے اور کیسے گذر بسر کر رہی ہے جبکہ اس کا بھائی بھی نہیں۔ الٹا مشترکہ زمین میں سے اس یتیم کا حصہ بھی نہیں دیتے مگر سال کا چلہ بھی نہیں چھوڑتے۔ یہ ناسور ہیں اس معاشرے کے۔ ایسے منافق لوگ سماج کے وجود کا ٹیومر ہیں ۔ آدھے نیک لوگ پورے برے انسان سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جیسے منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور زیادہ سزا کا حقدار ہے اگرچہ نماز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پہلی صف میں پڑھتا ہو۔
ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار ۔
اپنے پڑوسی اور عزیز و اقارب کا خیال رکھیں تو اللہ پاک نے رزق کی تقسیم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جس میں انسانوں کا امتحان ہے۔ امیر کے مال میں غریب رشتے داروں اور غریب محلے داروں کا حصہ رکھا گیا ہے, ادا نہیں کرے گا تو لازم محاسبہ ہوگا اگرچہ درجنوں حج کر رکھے ہوں ہر نفلی حج اور عمرے پر حشر میں جوتے مارے جائیں گے کہ غریب رشتےداروں کا حق ادا کرنے کی بجائے اس کا ٹکٹ لے کر مجھے غصہ دلانے کے لئے حطیم میں سینہ رگڑنے مکہ آ گئے تھے؟ پڑوس میں غریب بچی کے ہاتھ پیلے کرنے کو ترس رہا تھا اور تو اس کی مدد کرنے کی بجائے مجھے دھوکا دینے مکے آ گیا ؟
مسئلہ برے لوگ نہیں مسئلہ نیک لوگ ہیں جن کا تصورِ نیکی محدود اور مسخ شدہ ہے۔