اللہ تعالیٰ سے ڈرا ڈرا کر اس کے ساتھ تعلق کو نفرت کی حد تک لے جانا۔ عذاب قبر کی جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر مسلمانوں کی نیندیں حرام کر دینا، اور ذرا ذرا سی خطا پر کروڑوں سال کی سزائیں سنانے والوں کا علاج یہ بابا ہی ہے جس نے مرنے پر ایسے خوشی کا اظہار کیا ہے جیسے لوگ بچے کی پیدائش پر کرتے ہیں۔ ہم اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، پھر جب اس کی طرف جاتے ہیں تو خوشی منانے میں کیا حرج ہے؟انا للہ وانا الیہ ۔ کا پیغام کیا ہے؟ اللہ پاک نے کیوں فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ یہ مت کہیں کہ یہ سنت نہیں ۔۔ یہ واقعی سنت نہیں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نہ اس کی تلقین فرمائی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا وہ تصور بھی تو نہیں دیا جو مولویوں نے دیا ہے گویا اللہ پاک تنور گرم کیئے بیٹھا ہے اور ذرا ذرا سی خطا پر پکڑا کر تندور میں جھونک رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اللہ کے بارے میں محبت کا تصورِ دیا ہے، بخشش کی امید دلائی ہے۔ اس پیر نے مولویوں کا علاج بالمثل کیا ہے۔ مولویوں کے غلو کا علاج اس نے رب سے اپنی محبت کے غلو میں کیا ہے کہ کچھ لوگ موت کو رب سے ملاقات سمجھتے ہیں ۔
ھذا ما عندی والعلم عند اللہ