پیٹرول کی ٹینکی میں ریزرو پؤائنٹ وہ ہوتا ھے جب پیٹرول ماپنے والا گیج جواب دے جاتا ہے،تب بعض کنجوسوں کو احساس ہوتا ہے کہ اب معاملہ چند میلوں کا رہ گیا ہے ،، اور وہ دائیں بائیں پیٹرول پمپ دیکھنا شروع کرتے ہیں ،، مگر بعض عقلمند گاڑی یا بائیک بند ہونے کے بعد ہی سمجھتے ہیں کہ پیٹرول ختم ہے ،،
یہی معاملہ اخلاقیات کا ہے، اللہ پاک نے انسان کو انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر انسان قرار دیا ہے، اخلاقیات کا کوئی مذھب نہیں ہوتا،، یہ انسان کے ضمیر اور شعور کا ارتقاء ہے جو اس سطح تک پہنچا ہے کہ اللہ پاک نے اس کو انسان قرار دینے کا فیصلہ کیا،، جس میں یہ اخلاق نہیں اس میں انسانیت ہی نہیں لہذا اس سے مزید کوئی توقع بھی نہیں ،، کسی کے احسان پر اس کا شکریہ ادا کرنا یہ ایک انسانی وصف ہے جس کو ہر مذھب پروموٹ کرتا ہے ،،کسی غریب رشتے دار کی مدد کرنا، بڑوں کی عزت کرنا، نرمی سے گفتگو کرنا ، پڑوسی کو تنگ نہ کرنا ، ملاوٹ نہ کرنا ، یہ انسانی اوصاف ہیں ، جن میں یہ نہیں ، وہ کسی بھی مذھب کے کام کا بندہ نہیں چاہے داڑھی ناف تک کیوں نہ ہو اور شلوار گھٹنوں تک چڑھی ہوئی کیوں نہ ہو ،،
لوگ اخلاقیات کو اللہ پاک کے مشورے سمجھتے ہیں کہ جو عمل کرے اس کا بھی بھلا اور جو نہ کرے اس کا بھی بھلا ،، شریعت اخلاقیات پر کوئی ایف آئی آر تو نہیں لکھواتی ، مگر یہ واضح کر دیتی ہے کہ اس بندے کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ، مثلا اگر آپ کسی کو رستہ نہیں بتاتے، یا مسکرا کر بات نہیں کرتے، یا سلام نہیں کرتے، یا اس کے مانگنے پر بھی پانی اس کو نہیں دیتے ، تو آپ کے خلاف قانونی کارروائی تو نہیں کی جا سکتی،مگر آپ کو کچھ حیوانات سے تشبیہہ ضرور دی جا سکتی ہے ،، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ ہم میں سے نہیں ،،
قریبی رشتے داروں کی مدد ـ
لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے رشتے داروں کی مدد کا مشورہ دیا ہے حکم نہیں دیا ، جبکہ اللہ پاک نے جہاں بھی انفاق کا ذکر فرمایا ہے سب سے پہلے رشتے داروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، جو یہ حق ادا نہیں کرتا وہ ان کا حق کھا جاتا ہے ، اور اس حق تلفی پر اللہ کے یہاں جوابدھی کا سامنا کرنا پڑے گا ،،
۱۔وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26) بنی اسرائیل
۲ـ وآتى المال على حبه ذوي القربى،، ۱۷۷ بقرہ
۳ـ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ، ۲۱۵ بقرہ
اس کے علاوہ بھی کئ جگہ اس انفاق کا حکم دیا گیا ہے، کہیں اس کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ، کہیں اس کو نیکی کا جزو قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی شخص نیک نہیں ہو سکتا ،،
اگر یہ بھی انسان میں نہیں ہے تو ایسی تمام کوتاہیوں پر رسول اللہ ﷺ نے سخت ترین الفاظ استعامل فرمائے ہیں ،، آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ زانی کا میری امت سے کوئی تعلق نہیں ، یا زانی اس امت کا حصہ نہیں ، مگر یہ تین بار قسم کھا کر فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ـ
[ وعن أَبي هريرة : أَن النَّبيَّ ﷺ قَالَ: واللَّهِ لا يُؤْمِنُ، واللَّهِ لا يُؤْمِنُ، واللَّهِ لا يُؤْمِنُ، قِيلَ: مَنْ يا رسولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الَّذي لا يأْمنُ جارُهُ بَوَائِقَهُ مُتَّفَقٌ عَلَيهِ.
آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں جس نے خود پیٹ بھر کر کھا لیا اور اس کا پڑوسی بھوکا رہا ،
[عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس المؤمن الذي يشبع وجاره جائع إلى جنبه] المستدرک، و صححہ الذھبی و الالبانی
جیسے فرمایا کہ جس نے ہمیں دھوکا دیا یعنی ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں، یعنی میری امت میں سے نہیں ،،
[من غشَّ فليس منَّي» رواه مسلم.
یا جیسا کہ فرمایا ، کہ وہ ہم میں سے نہیں جو بچوں پر شفقت نہ کرے،بڑوں کا احترام نہ کرے،
[مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، ويَعْرِفْ حَقَ كَبِيرِنَا؛ فَليْسَ مِنَّا”(رواه البخاري في الأدب المفرد وأبو داود، وصححه الألباني).
ان تمام احادیث میں یہ اعلان کہ ایسے لوگوں کا میری امت سے کوئی تعلق نہیں یہ ثابت کرتا ہے کہ انسانیت ان لوگوں کے ریزرو پؤائنٹ سے بھی ختم ہو گئ ہے، اور اب یہ دو ٹانگوں پر چلنے والے دو پائے ہی ہیں ـ
سورہ الماعون کاموضوع ہی یہ دو پائے ہیں اگرچہ وہ نماز پڑھتے ہوں مگر قرآن ان کو ریاکار قرار دیتا ہے جو یتیم کو دھکے دیتے اور مسکین کو کھلانے سے کنی کتراتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آخرت کا منکر قرار دیتا ہے
قاری حنیف ڈار