ڈیفنس ھاؤسنگ اسکیم والے پورے ملک کے مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے لے کر جنوب تک جنگلات کو اندھا دھند کاٹے آور ھاؤسنگ سوسائٹیاں بناتے چلے جا رہے ہیں،ان کی دیکھا دیکھی دیگر پرائیویٹ ھاؤسنگ سوسائٹیوں والے بھی کھمبیوں کی طرح اگتے چلے جا رہے ہیں، قبضے کے لئے سرکاری جنگلات کو آگ لگائی جا رہی ہے،دوسری جانب فلسطینیوں کی طرح غریبوں میں بھی زمینیں بیچنے کی ریس لگی ہوئی ہے، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ٹھیک یہود کی پالیسی کے تحت عوام کو فلسطینی بنانے پر لگے ہوئے ہیں،اسرائیل اور فلسطین کی کہانی پاکستان میں دھرائی جا رہی ہے،اور فریاد کرنے کی جگہ بھی کوئی نہیں،جنہوں نے اندرونی دشمنوں سے ملک کا دفاع کرنا تھا وہ خود ملک کو صومالیہ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں،جہاں سے انصاف ملنا تھا وہاں ڈی ایچ اے کے ہی خریدے ہوئے بیٹھے ہیں۔ سندھ ،بلوچستان،لاھور اور پشاور ہائیکورٹس کے دیئے گئے اسٹے سپریم کورٹ میں بیٹھے ملازم ایک ہفتے کے اندر ہی ختم کر کے تعمیر کی اجازت دے کر اپنے پلاٹ اور پیسے کھرے کر لیتے ہیں، پہلے ہم آم دیر تک کھایا کرتے تھے اب بس ہفتوں کے لئے ہی دستیاب ہوتا ہے،یہی حال کنو کا بھی ہے،
مجھے اس بچے کی کہانی یاد آ رہی ہے جس کے والد نے بادشاہ کی جان بچانے کے لئے اس کو بیچ دیا تھا ، مفتی نے بھی بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بچے کا دل نکال کر بادشاہ کو لگانے کا فتویٰ دے دیا اور قاضی نے بھی بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بچے کی رحم کی اپیل خارج کر دی۔ بچہ آسمان کی طرف منہ کر کے مسکرایا کہ اب تم سے دعا کر کے میں تیرا بھرم نہیں کھونا چاہتا،میں خود آ رہا ہوں تیرے آمنے سامنے کھڑا ہو کر فریاد کرنے۔
عیسی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس کھیت کی باڑ ہی اس کو کھانے لگ جائے اس کھیت کی حفاظت بھلا کون کرے گا۔