گناہ کیئے جائیں اور گناہ ہو جائیں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جب ڈرائیونگ لائسنس دیا جاتا ہے تو ایکسیڈنٹ کرنے کے لئے نہیں دیا جاتا مگر اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جاتا کہ اس سے ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ایکسیڈنٹ ہونے کے باوجودِ لائسنس بحال رہتا ہے،ہمارے استاد مولانا اسماعیل صاحب نے لائسنس لیا اور خورفکان کے اپنے پہلے سفر میں ہی ایسا برا ایکسیڈنٹ کیا کہ اپنا چچا بھی جگہ پر مار دیا اور خود بھی پورے بدن کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا مغز جس پیالے میں رکھا ہوتا ہے اس میں بھی فریکچر ہو گیا جبڑے ٹوٹ گئے اور آنکھیں نکل کر لٹک گئیں عرصے تک اسپتال میں رہے ۔مگر اس کے باوجود ان کا لائسنس بحال رہا۔ لائسنس کا مطلب یہ گارنٹی دینا نہیں ہوتا کہ اب اس ڈرائیور سے کبھی حادثہ نہیں ہو گا۔ بلکہ حادثے کے امکان کے باوجودِ لائسنس دیا جاتا ہے۔ نو انٹری سے داخلے کا چالان، غلط پارکنگ اور سپیڈ لمٹ کراس کرنے اور ریڈ اشارہ جمپ کرنے کے قوانین بتاتے ہیں کہ یہ سب امکانات ذھن میں رکھ کر بھی لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ بس اس حدیث میں یہی سمجھایا گیا ہے کہ تمہارا گناہ نہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے سرپرائز ہے اور نہ ہی مینوفیکچرنگ فالٹ ہے بلکہ ان سب گناھوں کے امکان کے باوجود اللہ نے انسان کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بنانے تو جبرائیل علیہ السلام کے بھائی چلا تھا مگر بن گئے ہمارے جیسے ناسور۔ آدم علیہ السلام کا ایڈوانٹیج معصوم ہونا نہیں بلکہ گنہگار ہو کر توبہ کرنا اور گر کر نئے عزم کے ساتھ اٹھنا ہے اور یہی توبہ کر کے اٹھنا شیطان کے خلاف حضرت انسان کا سرپرائز ویپن بھی ہے۔ یہ توبہ اس کی سالوں کی رات دن کی محنت اور کنسلٹنسی کو ایک پل میں نسیا منسیا کر دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کو یوم عرفات اپنے سر پر خاک ڈالتے دیکھا اور فرمایا میں نے آج تک ابلیس کو اس قدر غمگین اور برافروختہ نہیں دیکھا ۔اللہ پاک نے ہمیں پیدا کر کے آزما کے نہیں جانا بلکہ جان کر پیدا کیا ہے، اللہ پاک کو اچھی طرح پتہ تھا کہ وہ کس فنکار کو پیدا کرنے جا رہا ہے ،جب ہم آدم علیہ السلام کی مٹی میں تھے تب بھی وہ ہم سے بخوبی واقف تھا۔جب رحم مادر میں تھے تب بھی وہ جانتا تھا کہ وہ کیا بنا رہا ہے اور یہ کس قدر امکانات کی حامل مخلوق ہے۔یہ پل میں فردوس بریں میں ہوتا ہے اور اگلے پل میں جھنم کے وسط میں۔دیکھنا یہ ہے کہ آخری سانس کے وقت یہ کس جگہ ہو گا؟
فلا تزکوا انفسکم،تم اپنے آپ کو پاکباز (پیر صاحب) نہ بیان کیا کرو,ھو اعلم بمن اتقی۔وہ بخوبی جانتا ہے کو کتنا متقی ہے،،اگر ہمارے پردے رکھے ہوئے ہے تو ہمیں شوخیاں نہیں دکھانی چاہئیں،،کلاس میں جب ٹیچر سوال کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو شاگرد سب سے زیادہ اچھل اچھل کر ہاتھ ہلا رہا ہے وہ بلف کر رہا ہے مگر وہ اس کو اگنور کرتا ہے حیا کی وجہ سے کہ اس جوش و خروش میں اگر یہ ننگا ہو گیا تو ساری کلاس کے سامنے ذلیل ہو جائے گا۔لیکن جب وہ شاگرد یہ وطیرہ ہی بنا لے اور سمجھے کہ وہ استاد کو دھوکا دے رہا ہے اس وقت استاد اس کو کھڑا کر لیتا ہے کہ اب بتاؤ اور وہ شانڑا شاگرد بغلیں جھانکنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ جتنے اعلیٰحضرت ہیں یہ اللہ کے ساتھ بلف گیم کھیل رہے ہیں سب عام انسان ہیں ، سب پر ایک جیسی شریعت لاگو ہے اور سب کی عزت ذلت کے فیصلے یوم الفصل کو ہی ہونگے
” وما ادارک ما یوم الفصل "