قران مجید میں اللہ تعالٰی نے بہت سارے لوگوں کے آپس میں ڈائیلاگز کوٹ کیئے ہیں۔موسی علیہ السلام اور قوم کے مکالمے، عیسیٰ علیہ السلام اور یہود و نصاری کے درمیان مکالمے۔ اھل ایمان اور ان کے انبیاء کے درمیان مکالمے۔اصحاب کہف کے آپس میں مکالمے وغیرہ وغیرہ، ذرا تصور کریں کہ اگر ہمارے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل ہوتی اور اس میں ہمارے آپس کے مکالمے بطور قصص بیان کئے جاتے تو کیا عالم ہوتا اور ہمارے بارے میں آنے والی انسانیت میں ہمارا تعارف کن الفاظ میں کرایا جاتا؟؟؟ جب ہمارے علماء کو بطورِ علمائے سوء متعارف کرا کر ثبوت کے طور پر ان کے فیس بک کے کمنٹس پیش کیئے جاتے تو ہم پر بعد والے لوگ اپنی نمازوں میں کس طرح لعنت کیا کرتے جیسے ہم پہلے والوں پر قرآن تراویح میں سناتے وقت کرتے ہیں۔ اولئک علیھم لعنت اللہ والملائکۃ والناس اجمعین۔
مگر فکر کی کوئی بات نہیں اب کسی نئ کتاب کی ضرورت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں کہ بہت سارے قرآن پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کر رہا ہوتا ہے ، وہ لعنت جو ہم یہود اور ان کے علماء کے بارےمیں تلاوت فرماتے ہیں وہ خود ہم پر اور ہمارے علماء پر بھی نقد و نقد نازل ہو رہی ہوتی ہے۔ کتاب اللہ وراء ظھورھم کانھم لا یعلمون، اللہ کی کتاب ان کی پشتوں کے پیچھے ہے گویا وہ اس کو جانتے بھی نہیں، یہ آیت جتنی صادق یہود اور تورات کے بارے میں ہے،اتنی ہی سچی مسلمانوں اور قرآن کے بارے میں بھی ہے۔ تورات میں تحریفات کے ذریعے جس طرح کتاب اللہ کو مفلوج کر کے اپنے اسلاف کے فتؤوں کو رائج کرنے کی چارج شیٹ جتنی یہود اور ان کے علماء کے بارے میں سچی ہے ویسی ہی مسلمانوں اور ان کے علمائے کرام کے بارے میں سچی ہے اور وہ ساری لعنتیں بغیر اعراب تبدیل کئے ہمارے بارے میں بھی ایڈوانس میں کر دی گئی ہیں، کاش ہم سمجھ سکتے کہ یہود کے ماضی کے ذکر میں ہمارے حال کی تصویر کشی کی گئی ہے اس زندہ کتاب میں۔ عملی طور پر جو واردات مشنی نے تورات کے ساتھ کی تھی کہ تلاوت تورات کی اور فتوی مشنا کا چلتا تھا ، ٹھیک وہی وارادت ہم قرآن کے ساتھ کر چکے ہیں کہ تراویح میں ختمِ قرآن ہوتا ہے مگر فتوے کہیں اور سے دیئے جاتے ہیں۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے تھے کہ آپ کے پاس سے کوئی صاحب کسی چیز کو سینے سے لگائے گزرے۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حدیثیں ہیں، آپ نے فرمایا” بل ھو مشنا کمشنا یہود ۔ بلکہ یہ یہود کے مشنی کے تتبع میں مشنی زیر تصنیف ہے "۔( جس کے ذریعے کتاب اللہ کو غیر مؤثر کیا جائے گا) کذا فی بخاری۔و کذا فی ترمذی و کذا فی ابنِ ماجہ و کذا فی تاتارخانیہ و کذا فی عالمگیری و کذا فی رد المختار و کذا فی در مختار ۔ فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا۔فویل لھم مما کتبت ایدیھم و ویل لھم مما یکسبون،(البقرہ 79)