جوتیوں کی سرسراہٹ سننے والی روایت کی سند صحیح مگر متن عیب دار ہے اور اس کا عیب یہ ہے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے اگرچہ بخاری نے روایت کی ہے۔ امام شامی
[إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (36،الانعام]
درحقیقت جواب تو وہ دیتے ہیں جو سنتے ہیں۔جبکہ مردوں کو تو اللہ ہی اٹھائے گا پھر وہ اس کے سامنے پیش کیئے جائینگے
ان تَدْعُوهُمْ لا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ، و یوم القیامۃ یکفرون بشرککم ۔فاطر 14]
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سنتے نہیں،اور اگر سن بھی لیتے تو پوری نہ کر پاتے۔ اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے
[حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100) فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساءلون ،،،المومنون ،]
جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے،تو کہتا ہے اے رب مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں جو پیچھے چھوڑ آیا ہوں اس کو نیکی میں خرچ کر دوں۔ ہر گز نہیں،یہ تو وہ جملہ ہے جو وہ ہر مرحلے پر دہراتا رہے گا،جبکہ ان کے بدن اور روح کے درمیان اب یوم بعثت تک آڑ ہے،پھر جس دن پھونکا جائے گا صور میں،تو ان میں نسب کا کوئی رشتہ نہ ہو گا اور نہ نسب کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا
مرنے کے بعد بس صور پھونکے جانے پر ہی روح لوٹے گی،،
[وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَحْيَآءُ وَلَا ٱلْأَمْوَٰتُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ ۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍۢ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ۔ فاطر ۲۲،،
زندہ اور مردہ برابر نہیں، بےشک اللہ جس کو چاھے سنا دے ،جبکہ آپ ہر گز نہیں سنا سکتے ان کو جو قبروں میں ہیں ،، جب رسول اللہ ﷺ نہیں سنا سکتے تو پھر راوی کا باپ بھی نہیں سنا سکتا ۔
[وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا ،، مریم ۱۵
اور (اﷲ تعالیٰ کی طرف سے) سلام ہے ان پر اُس دن بھی جس روز وہ پیدا ہوئے، اُس دن بھی جس روز انہیں موت آئے گی، اور اُس دن بھی جس روز انہیں زندہ کر کے دوبارہ اُٹھایا جائے گا یعنی یحی علیہ السلام کو،]
[وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (33) مریم
اور سلامتی ہے مجھ پر یعنی عیسی علیہ السلام پر جس دن میں پیدا ہوا، اور جس دن میں مرونگا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤنگا ،،
نہ تو یحی علیہ السلام کی زندگی ،موت اور بعثت کے مراحل میں اور نہ ہی عیسی علیہ السلام کی پیدائش ، موت اور بعثت کے مراحل میں قبر کی بعثت کا کوئی حوالہ ہے،، مرنے کے بعد بس ایک ہی بعثت ہے جو نفخہ ثانیہ کے وقت تمام مسلم و کافروں کو اٹھا کھڑا کرے گی ،، اس کے علاوہ بھی درجنوں آیات ان مضامین پر موجود ہیں ، مگر منکرین قرآن ان کی تاویل کر کے روایات کو قرآن پر غالب اور اپنے راویوں کو جبراءیل سے زیادہ سچا ثابت کرتے ہیں ،،
[إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ (14) فاطر،
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے، اگر سن بھی لیتے تو تمہاری حاجت پوری نہ کر سکتے اور(( قیامت کے دن)) تمہارے شرک کا انکار کر دینگے ،، قبر چونکہ زندہ نہیں لہذا انکار بھی نہیں کر سکتے، قیامت کو اٹھیں گے تو انکار کریں گے ،،
[ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5)وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ (6) الاحقاف
اس سے بڑھ کر زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کو چھوڑ کر ان سے مانگے جو قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے ، اور وہ ان کی دعا سے غفلت میں ہیں ،، اور جب لوگ حشر میں اکٹھے کیئے جائیں گے تو وہ پکارے جانے والے پکارنے والے کے دشمن بن جائیں گے، اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔