جب قبرستان جانے کی ممانعت کی گئی تھی تو دونوں فریقوں کو کی گئی تھی۔ بعد میں وہ ممانعت ختم کر دی گئی اؤر دونوں کو اجازت دے دی گئی۔ الگ سے عورتوں پر پابندی کی بات درست نہیں۔
جب یہود سے قلبی تعلق کی پابندی لگائی گئی تو اسی زمانے میں قبروں کی زیارت پر بھی پابندی لگائی گئی، کیونکہ اھل مدینہ کے اجداد یہودی ہی تھے اور وہ قبریں یہود کی ہی تھیں۔ بعد میں جب مسلمان بھی وہاں دفن ہو گئے تو اجازت دے دی گئ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت اور قبرستان۔
عام طور پر خواتین کو جنازے کے ساتھ اس لئے نہیں جانے دیتے کیونکہ وہ روتی دھوتی جاتی ہیں،بین کرتی ہیں، خدشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر پر بھی پٹ سیاپا نہ شروع کر دیں۔
البتہ بعد میں ان کا قبروں پر جانا نہ تو معیوب ہے نہ ہی شرعا ممنوع ہے، قبرستان عبرت حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے، موسی علیہ السلام کو کہا گیا تھا کہ وہ اپنی قوم کے دل نرم کرنے کے لئے ان کو ” ایام اللہ ” کے ذریعے یاد دھانی کروائیں۔ فذکرھم بایام اللہ ” نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھیوں کے ساتھ اور اکیلے بھی بقیع اور شیدائے احد کے قبرستان جایا کرتے تھے، ہم نے فتنے کے ڈر سے عورت پر جماعت کی نماز کے لئے جانے پر پابندی لگا دی۔ جمعہ پڑھنے پر پابندی لگا دی اور عبرت حاصل کرنے کے لئے قبرستان جانے پر بھی وعید سنا دی۔ عورت مسجد جائے تو اھل ایمان کے وضو ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کی جماعت قضا اور نماز فاسد ہو جاتی ہے، اپنے بھائی کا جنازہ کندھوں پر اٹھا کر اور قبر سامنے دیکھ کر بھی ان کے نفس کا سانپ پھن اٹھائے رہتا ہے۔ اصل فتنہ یہ لوگ خود ہیں، جو مساجد میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں،جس تعداد میں یہ مسجد کی بیحرمتی کرتے پکڑے جاتے ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم میں موجود ہوتے تو یقیناً ان لوگوں کے مساجد میں داخلے پر پابندی عائد کر دیتے۔ انہی الفاظ کے ساتھ ان لوگوں نے عورت پر پابندی لگائی تھی ۔ ان کے اندر کا عالم خدا کے سامنے کھڑے ہو کر بھی یہ ہوتا ہے کہ مسائل کی کتابوں میں بھی لکھ دیا گیا ہے کہ امرد یعنی جس بچےکو ابھی داڑھی نہیں آئی اس کو امام مت بنائیں کیونکہ وہ رکوع و سجود کر رہا ہوتا ہے اور مقتدیوں کو کاما سوترا یاد آ رہا ہوتا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سات آٹھ سال کا بچہ قبا والوں کی امامت کرایا کرتا تھا جو صرف قمیص پہنے ہوتا تھا،جس کی وجہ سے اس کا ستر کھل جاتا۔ جس پر سب نمازیوں نے پیسے اکٹھے کر کے اس بچے کو سوٹ سلا کر دیا۔ یہ بچہ غالباً زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔