بنو قریظہ کے واقعے سے متعلق تین مزید نکتے اٹھائے گئے۔ ان سے متعلق مختصر گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ بنو قریظہ کے جنگی قیدیوں کو بغیر مقدمہ چلائے قتل کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ’’مقدمہ چلانے‘‘ کی کیا تعریف ہے؟ اور کیا مقدمہ چلانے کا کوئی ایک متعین لگا بندھا طریقہ ہے جس کی پیروی کسی جدید تمدنی ریاست اور ایک قدیم قبائلی معاشرت میں یکساں طور پر ضروری ہو؟ مقدمہ چلانے کامقصد یہی ہوتا ہے کہ الزام کی تحقیق ہو جائے اور کسی کو ثبوت جرم کے بغیر سزا نہ دی جائے۔ کیا بنو قریظہ عہد شکنی اور مشرکین کے ساتھ ساز باز کے مرتکب نہیں ہوئے تھے؟ کون سے تاریخی شواہد ہیں جن کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ الزام جھوٹا تھا اور انھیں بغیر ثبوت کے سزا دی گئی؟
۲۔ بنو قریظہ کوئی ’’جمہوری حکومت‘‘ نہیں تھی جس میں ہر ہر فرد کو فیصلے کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ ان کے بعض قائدین نے یہ فیصلہ کیا ہوگا جس پر ساری قوم کو گردن زدنی قرار دینا درست نہیں ہو سکتا۔
گزارش یہ ہے کہ اگر سرداروں کے فیصلے کے بعد پوری قوم اس کی تائید کرے اور عہد شکنی کے عمل میں شریک ہو جائے تو پھر ساری قوم ذمہ داری ہوتی ہے، سوائے ان افراد کے جو خود کو کسی واضح عمل کے ذریعے سے اس سے الگ کر لیں۔ یہ ہدایت قرآن نے بھی دی ہے کہ اپنی قوم کے ساتھ مجبوراً میدان جنگ میں آنے والوں کے خلاف اقدام نہ کیا جائے، بشرطیکہ وہ بھی تمھارے خلاف اقدام نہ کریں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر وغیرہ میں مشرکین کے کیمپ کے متعدد افراد کو قتل کرنے سے اس بنیاد پر منع کر دیا تھا کہ وہ دل سے لڑنا نہیں چاہتے، لیکن قوم کے دباؤ کے تحت میدان میں آ گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر بنو قریظہ کے سب بالغ افراد کو قتل کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کے نزدیک وہ سب عہد شکنی کے مجرم تھے۔ اگر ان میں سے کچھ افراد اپنا استثنا ثابت کر دیتے تو ان کے ساتھ یقیناًالگ معاملہ کیا جاتا۔ دوبارہ اس نکتے کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ ہم آج بعض روایات کی روشنی میں، جس میں چند ضمنی تفصیلات ہی بیان ہوئی ہیں نہ کہ واقعے کی اول وآخر مکمل روداد، صورت حال کے متعلق حکم نہیں بن سکتے۔ پھر بھی اگر کسی کو اعتراض ہے تو اسے تاریخی شواہد سامنے لانے چاہییں کہ فلاں فلاں افراد عہد شکنی میں ملوث نہیں تھے اور پھر بھی ان کو سزا دی گئی۔ محض قیاسات سے یہ الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
۳۔ بنو قریظہ کے عورتوں اور بچوں کو غلام لونڈیاں بنا لیا گیا اور یوں انھیں ہر روز ایک نئی موت کی سزا دی گئی۔
یہ اعتراض بنو قریظہ کے اس واقعے کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ علی العموم قیدیوں کو غلام لونڈی بنانے پر وارد ہوتا ہے۔ اس پر کسی مستقل نشست میں گفتگو ہو سکتی ہے کہ اس کا جواز کیا تھا او رکیا نہیں۔ بہرحال اگر بنو قریظہ کے ساتھ ایسا کیا گیا تو اس وقت کے مسلمہ اور رائج الوقت جنگی قانون کے تحت اس کا پورا پورا جواز تھا۔ آج کے مختلف اخلاقی تصورات اور معیارات کی روشنی میں کوئی اعتراض کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ خود فیصلہ کرنے والے اپنے اخلاقی وقانونی معیارات کی رو سے کسی بد اخلاقی کے مرتکب ہوئے تھے۔