گاؤں کی دنیا بہت محدود اور کام گنے چنے ھوتے تھے !
یعنی ھر بندے کو پتہ ھوتا تھا کہ اس نے کیا کرنا ھے اور کتنے بجے کرنا ھے !
اپنے لگے بندھے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے بعد جس میں ھل چلانا، کھیتوں سے چارہ لانا ،کُترا کرنا، مویشیوں کو ڈالنا، دودھ دوھنا ! وغیرہ سب شامل تھا، سارا دن کام کرنے کے بعد نہا دھو کر عصر کے بعد انٹرٹینمنٹ کا سیگمنٹ ھوتا تھا ، جیسے جیو انٹرٹینمنٹ ھوتا ھے !
سارے جوان نہا دھو کر اور کچھ سابقہ جوان اور حال کے بوڑھے بھی نہا دھو کر اور تبت سنو لگا کر عصر کے وقت چوکوں میں آ کر بیٹھ جاتے ،جہاں سے لڑکیاں دن کا سارا کام ختم کر کے کنوئیں سے پانی بھرنے جاتی تھیں تو پاس سے گزرا کرتی تھیں !
بعض تو آتے ھی اپنے ھمراز سے کان میں پوچھ لیتے تھے کہ ” فلاں ” گزر گئ ھے ؟ ملک صاحب نے اس دن غالباً دو دفعہ صابن مل لیا ھو گا،، یا سرمہ ڈالنے کے لئے شاید چمچ وقت پر نہیں ملی ھو گی ( ان کے بارے میں سب کی رائے یہ ھی تھی کہ وہ چمچ سے سرمہ ڈالتے ھیں کیونکہ وہ آدھی ناک تک پھیلا ھوا ھوتا تھا ) خیر سبب کچھ بھی ھو ، ملک صاحب لیٹ ھو گئے تھے اور ان کا صنم گزر گیا تھا ! جونہی وہ سامنے ھوئے تو ان کے دوست نے کہا ” ملکا لنگ گئ آ ” ملک صاحب نے وھیں سے اباؤٹ ٹرن کیا اور مسجد چلے گئے ! بجلی کوئی نہیں تھی اس زمانے میں گاؤں کی مساجد کے اسپیکر بیٹری پر چلتے تھے،ملک صاحب مسجد کے متولی تھے،جیب سے چابی نکالی اور اسپیکر آن کر کے نعت شروع کر دی ” بہت خوبصورت ھے میرا صنم – خدا ایسے مُکھڑے بناتا ھے کم ” نعت ختم کر کے آئے تو چوک میں کسی نے ٹوک دیا کہ ملک صاحب یہ تو گانا ھے ! کہنے لگے نیت نیت کی بات ھے میں نے حضور کا خیال کیا ھوا تھا ،لہذا سمجھو کہ نعت ہو گئ۔
اسپیکر گاؤں میں آئے تو نت نئے لطیفے ھونے لگے،، صوبیدار صاحب فوج سے فارغ ھو کر آئے تو مسجد کے متولی کے فرائض سنبھال لئے ،،یہی وھی فرائض ھیں جو اورنگزیب کے والد ماجد معزول شہنشاہِ ھند نے قید کے دوران اپنے ولی اللہ فرزند سے کہا تھا کہ دن بھر اکیلا ھوتا ھوں ،چند بچے قرآن پڑھنے کے لئے بھیج دیا کرو ! جواب ملا بابا جی عادت نہیں ناں گئ حکومت کرنے کی؟ تم چاھتے ھو کہ وھی جزا اور سزا کا عمل چھوٹے پیمانے پر قیدخانے میں شروع کر دو،، ایسا نہیں ھو سکتا !
خیر صوبیدار صاحب صبح صبح مسجد کھولنے آئے،ساون کا مہینہ تھا اور فصلیں بڑی بڑی تھیں،، اس قسم کے موسم میں دیہاتی بچے، بڑے ، مرد و زن فصل کی بجائے کھلی جگہ کو ترجیح دیتے تھے ! خیر رات کو بچے مسجد کے دروازے کے سامنے اونچی جگہ پر فارغ ھو کر چلے گئے تھے ! صوبیدار صاحب ابھی جیب میں چابی ھی ڈھونڈ رھے تھے کہ ان کا ھاتھ جہاں کا تہاں جم کر رہ گیا ،انہوں نے ایک ھاتھ اور دو آنکھوں سے نیچے جھک کر دیکھا تو انہیں اندازہ ھوا کہ ” یہ راستہ کوئی اور ھے !
نماز کے دوران بھی صوبیدار صاحب گالیوں کی بحـــر اور وزن درست کرتے رھے !
نماز ختم ھوئی تو صوبیدار صاحب نے اسپیکر آن کیا ” ٹن ٹن ،، ٹن ٹن ٹن،، یہ مائیک پر انگلی مارنے کی آواز ھے !!
رات کے فوت شدگان کی وفات کا اعلان فجر کے بعد کیا جاتا ھے،لوگوں کے دل دھک سے رہ گئے،، عورتوں نے برتن رکھ دیئے اور بات کرتے شوھر کو ڈانٹ کر چپ کرایا ” گولا لگی چپ کر "”
حضرات ایک ضروری اعلان سنیئے !
صوبیدار صاحب کی کراری آواز گونجی،، لوگوں کا دھیان بیمار اور عمر رسیدہ متوقع مرنے والوں کی طرف گیا !!
حضرات ! ایک ضروری اعلان سنیئے،، آگے پوٹھواری میں پیریڈ شروع ھوتا ھے !
حضرات ! ایک ضروری اعلان سنیئے ” مسیتی نے بوھے اگے ٹٹی کرنے آلیا اوئے کھوتی نے پترا ،یہ ابتدا تھی،، انتہا کا اندازہ آپ خود کر سکتے ھیں !!
اس سے بالکل ایک فرلانگ کے فاصلے پر ملک قوم کی مسجد ھے، جس میں فصل کی بیجائی کے بعد کا اعلان !
حضرات ایک ضروری اعلان سنیئے !
تساں کی چنگی طراں پتہ اے فصلاں رائیاں جا چکیاں نے،، تے ھن مہربانی کر کے اے کھوتیاں بن کے رکھو ،، ورنہ کل میں فیر نویاں گالیاں نال حاضر ھوساں نے !!
( آپ کو اچھی طرح پتہ ھے فصلیں بیجی جا چکی ھیں اس لئے اب مہربانی کر کے کھوتیاں باندھ لیں ورنہ کل میں نئ گالیوں کے ساتھ پیش ھونگا )
الغرض دیہاتی زندگی میں گلی گلی ڈاکٹر یونس بٹ رُلتے پھرتے ھیں !
اب تو شہروں کی حالت بھی پتلی ھے، سنا ھے کہ دیہاتی سارے شہروں میں شفٹ ھو گئے ھیں اور شہر والے دبئی آ گئے ھیں !
قاری حنیف ڈار بسلسلہ نشر مکرر