نائی دیہات کی بیورو کریسی کا اھم ترین کِل پُرزہ ھوتے ھیں ، سارا گاؤں ان کے ہاتھوں مسلمان ھوتا ھے، جب کبھی گاؤں والے ان کے ساتھ جھگڑا کریں تو وہ سب سے پہلا طعنہ ھی یہ دیتے ھیں کہ ھم نے تمہارے باپ دادا کو مسلمان بنایا ھے تم ھم سے کیا بات کرتے ھو !
مسلمان بنانے کے بعد مسلمان رکھنے کا فریضہ بھی نائی اور مولوی دونوں کے نازک کندھوں پر ھی ھوتا ھے ! سردیوں میں صبح صبح لوگ ٹھٹھرتے ھوئے نائی کے گھر کے باھر گلی میں بیٹھے ھوتے تھے،، یہ منظر میں نے جاپان میں اسکسا مسجد ٹوکیو کے بالکل پچھواڑے سنٹرل ٹوکیو میں دیکھا تھا،، اس وقت کے جنرل سیکرٹری جناب سراج قمر صاحب بھی میرے ساتھ تھے،، ساری رات سخت بارش ھوتی رھی تھی،، اور میں اس چار منزلہ عمارت میں اکیلا ساری رات آخری منزل سے بارش کا نظارہ کرتا رھا،، صبح صبح باھر نکلے تو پچھواڑےمیں منفی ٹمپریچر میں بے گھر جاپانیوں کی لائن لگی تھی اور ان ٹھٹھرے اور کانپتے بے گھر جاپانیوں کو ایک چیریٹی تنظیم ایک ایک سینڈویچ( بنتو ) اور ایک ایک بیئر کی بوتل دے رھے تھی،، اچانک ایک بڑے کارٹن میں حرکت شروع ھوئ،، میں نے چونک کر اسے دیکھا ،اس میں سے کرالنگ کرتا ھوا ایک بوڑھا سا جاپانی نکلا،، سراج بھائی نے بتایا کہ یہ ان بے گھروں کا نواز شریف ھے جس کے پاس رات کو سونے کے لئے کارٹن ھے ،، خیر جاپان کی داستان بھی کبھی سہی،جاپان میں سب اچھا نہیں ھے،پاکستان بہت بہتر مواقع کے ساتھ بہترین ملک ھے –
نائیوں کے در کے باھر بیٹھی اس لائن کے ھر چار پانچ آدمیوں کی ٹولی کے پاس گرم پانی کا ایک ویسا ھی اسٹیل کا کپ ھوتا تھا،جیسا ھوٹل میں چٹنی ڈال کر دیتے ھیں،، ایک ایک کر کے شیو کی جا رھی ھوتی تھی ،جبکہ باقی کو حکم ھوتا تھا کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی لگا کر اور ھاتھ استعمال کرکے شیو کو نرم ( کُولا ) کرتے رھیں تا کہ وقت آنے پر مشقت سے دوچار نہ ھوں،صفائی کی دیگر ضروریات کے لئے بھی استرا صرف نائی کے پاس ھی دستیاب ھوتا تھا جسے وہ باقاعدہ شیڈول کے ساتھ سپلائی کرتا تھا، استرا لینے بچوں کو اسی طرح بھیجا جاتا تھا جیسے آج کل سگریٹ لینے بھیجا جاتا ھے، جواب میں نائی بتا دیا کرتا تھا کہ ابو کو بتا دینا استرا آج فلاں کے پاس ھے، اس طرح پورے محلے کو ایک دوسرے کے گھر کی خبر رھتی تھی ،
اگر آپ کے تعلقات نائی کے ساتھ اچھے ھیں تو استرا مل جائے گا اور تیز کیا ھوا ملے گا،اگر آپ فصلانہ دینے میں ڈنڈی مارتے ھیں اور وقت پر اس کی ادائیگی نہیں کرتے تو پھر استرا جس حالت میں ملتا تھا،اس میں کسی چیز کی گارنٹی نہیں ھوتی تھی ، اور نہ ھی نائی کولیٹرل ڈیمیج کا ذمہ دار ھوتا تھا- آپ نے قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے میں وہ واقعہ پڑھا ھی ھو گا ” پگڑی ھمارے گھر آگئ ھے،خدا را میری عصمت بچائیں ” بس اسی طرح استرا مختلف گھروں کا سفر کرتا تھا اور پورے محلے کو پتہ ھوتا تھا کہ کس گھر میں نزولِ استرا ھے !
اب گاؤں والے بامروت بھی اتنے ھیں کہ ممکن ھی نہیں کہ آپ کے پاس سے کوئی گزرے اور کوئی مکالمہ نہ ھو ،، مثلاً صبح صبح کھیتوں میں کوئی رفع حاجت کے بعد واپس آرھا ھو تو لازم پوچھیں گے ” کر آئے ھو ؟ یا بہہ آئے ھو ؟ یہ پوچھنا ایسا خلوص کے ساتھ ھوتا تھا جیسے مخاطب کشمیر کے محاذ سے واپس آ رھا ھے اور مخاطب بھی نہایت انکساری سے جواب دیتا ھے جی آ جی آ ۔
اسی طرح استرا زدہ رستے میں آتا ملے تو انتہائی تجسس سے پوچھیں گے،، فارغ ھو گئے ھو؟ اسی استرے کی برکت سے گاؤں والوں کے مسائل ھی نہیں بیماریاں بھی یکساں ھوتی ھیں،،
عورتیں پانی بھر کر آتی عورت سے لازم پوچھیں گی ” بھر مُڑی او ؟ جواب مثبت میں ھوتا ھے،، صبح صبح ایک لڑکی نے محلے کی خالہ کو پانی بھر کے آتے دیکھا تو تجسس سے پوچھا ،ماسی خیریت ھے ؟ ماسی نے جواب دیا بیٹا ،جس دن کے حج کر کے لوٹے ھیں اللہ کے حکم کے ساتھ بہن بھائی کی طرح ھیں، دیہاتی عموماً حج اسی زمانے میں کرتے ھیں جب اور کچھ نہ کر سکتے ھوں تا کہ حج سدا سلامت رھے، عرفات کے میدان میں سب سے زیادہ بوڑھے حاجی پاکستان انڈیا سے ھی ھوتے ھیں، نیز بنگال اور افغانستان کی نفسیات بھی یہی ھیں
ایک بابا جی ھیں جو صبح صبح جب استنجا پکاتے ھوئے گاؤں میں داخل ھوتے تھے تو ایک ھاتھ تو استنجا پکا رھا ھوتا ھے جبکہ دوسرے ھاتھ سے تہبند کو تھام کر بمشکل ستر قائم رکھے ھوتے تھے،، جو ملتا کہتا بابا جی سلام علیکم ،اور بابا جی بڑی انکساری سے سر نیچے کی طرف ھلاتے اور فرماتے پُتر جی منناں واں( مانتا ھوں یا قبول کرتا ھوں ) مقصد یہ تھا کہ اس حالت میں پلٹ کر سلام نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں قرآن کے الفاظ ھیں ،، یہ تھا احترام کسی زمانے میں قرآن کا،،اگرچہ لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے مگر جھوٹا قرآن بھی کوئی نہیں اٹھاتا تھا،،
جتنا مطالعہ بڑھا ھے علم تو بڑھا ھے مگر قرآن کا رومانس ختم ھو کر رہ گیا ھے،، اسی وجہ سے عمل میں انحطاط در آیا ھے،،یہ المیہ عربوں میں تو زور پر ھے جو لوگ سمجھتے ھیں عربی ا جانے سے عمل درست ھو جائے گا،،وہ غلطی پر ھیں،،عقیدہ تو درست ھو جاتا ھے،مگر قرآن صرف عربی کی ایک کتاب بن جاتی ھے،، رومانس ختم ھوتے ھی توفیق سلب ھو جاتی ھے،، الحاد کا ایک طوفان ھے جو عرب نوجوانوں میں انگڑائیاں لے رھا ھے،، اگلے دس سال بہت خطرناک ھیں،،ان میں بھی کچھ لوگ کوشش کر رھے ھیں کہ ایک نئے انداز میں نوجوان کو قرآن سے جوڑا جائے جو قرآن کو انسان اور سماج سے متعلق کر دے،،
دادا جان کے ساتھ اگلا کھڑاک کافی سالوں بعد ھوا،، میں غالباً چھٹی کلاس میں تھا ،دوپہر کا وقت تھا اور بڑی جانفشانی سے سائیکل کا ٹائر دوڑا رھا تھا، خود ھی منہ سے ریس دیتا، خود ھی ھارن بجاتا ،آواز دے کر سواریاں اتارتا اور خود ھی” استاد جی جان دیو ” کی آواز لگاتا ،،کہ اچانک سناٹے کو چیرتی ھوئی دادا جی کی آواز ابھری۔ اوئے کیا کر رھے ھو؟ دادا جی کی چار میں سے دو بیویاں بچی تھیں ، ان کے ھماری دادی سے الگ ھو جانے کے بعد ھمارا ان کے ساتھ تعلق واجبی سا رہ گیا تھا، اس بےتکلف مداخلت پر ھمیں تھوڑا سا تعجب ھوا ! ھم نے کوئی جواب دیئے بغیر ان کو استفہامیہ نگاھوں سے دیکھنے پر ھی اکتفا کیا،،وہ صرف تہبند باندھے قمیص سر پر رکھے شاید مسجد نہانے جا رھے تھے،،یہ ھاتھ میں کیا ھے؟ اب میں نے چپ رھنا مناسب نہ جانا اور ٹائر اٹھا کر ان کے پاس چلا گیا،، جی یہ ٹائر ھے،، دادا نے اس کو پکڑنے کے لئے ھاتھ آگے بڑھایا تو ھم نے بھی ٹائر ان کے ھاتھ میں دے دیا ،،کہاں سے لائے ھو؟ جی یہ دوست سے ایک دن کے لئے لیا ھے کل اسے واپس دینا ھے ! انہوں نے اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا اور اعلان کیا کہ یہ ٹائر تو میں لوں گا !! یہ ایک طاقتور کا امریکہ کی طرح ایران کے اثاثے فریز کرنے والا اعلان تھا – مجھے بہت تعجب ھوا کیونکہ میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے انہیں گدھی کے سوا اور کسی چیز کی سواری کرتے نہیں دیکھا تھا،،
اس گدھی کی مظلومانہ رحلت بھی ایک سانحہ تھی، ھماری پھوپھو کو ٹی بی کی بیماری تھی،شوھر چونکہ فوجی تھے تو فوجی اسپتال سے انہیں ڈھیر ساری ملٹی وٹامن گولیاں ملتیں جو وہ ڈبے میں بھرتی رھتیں اور یوں نیڈو پاؤڈر کا ڈھائ کلو کا ڈبہ بھر گیا،، انہوں نے وہ لا کر دادا جی کو دیا کہ لالہ آپ رات کو سوتے وقت ایک گولی دودھ کے ساتھ کھا لیا کریں،، دادا جی نے اعلان کیا کہ میری ٹانگیں تو میری گدھی ھے ،جس پر میں نے 20 کلومیٹر دور جا کر 10 سال مقدمہ لڑا ھے،لہذا میری بجائے اس کو گولیوں کی ضرورت ھے،، انہوں نے وہ ساری گولیاں لنگری میں اچھی طرح پیس کر لوھے کے نلے میں ڈالیں اور گدھی کو کھلا کر عشاء کی نماز پڑھنے چلے گئے،، واپس آئے تو گدھی مری ھوئی تھی اور خون اس کی ناک سے بہہ کر دور تک چلا گیا تھا،، دادا جی نے شور مچا دیا کہ بیٹی نے مجھے مارنے کی سازش کی تھی ،،یہ تو اچھا ھوا کہ گدھی پر تجربہ کر کے میں بچ گیا،، یہ نہ سوچا کہ بیٹی نے ایک گولی کہی تھی،ڈھائی کلو گولیاں نہیں کہا تھا –
میں نے سوچا دادا جی مذاق کر رھے ھیں،میں نے بھی پلٹ کر کہہ دیا کہ دادا جی لوگ آپ کو ٹائر چلاتے دیکھ کر کیا کہیں گے ؟ بولے میں اس کی ناڑی بناؤں گا،، ناڑی وہ رسی ھوتی ھے جو ھل اور پنجالی کے درمیان رشتہ ازدواج قائم کرتی ھے ،اسے جس طرف زیادہ کر دیا جائے اس جانور پر لوڈ زیادہ ھو جاتا ھے-جیسا کہ گھریلو زندگی میں میاں بیوی کے درمیان ھوتا رھتا ھے – اب ھم نے سمجھ لیا کہ معاملہ گھمبیر ھو گیا ھے، ایک طرف وہ دوست دماغ میں گھوم رھا تھا،،جو بہت ظالم مارتا تھا،،پورے کھوتے جتنا قد تھا اس کا،، اسکول میں بھی ماحول جیل والا ھوتا ھے جو آپ نے فلموں میں دیکھا ھو گا،، جو لڑکا سب سے نالائق ھوتا تھا وہ قد میں بڑا ھوتا تھا اور کلاس کا ڈان ھوتا تھا ،، کلاس میں چار بچے ایسے تھے جو ایک دوسرے کو مارنے کے لئے مجھے استعمال کرتے تھے،،بے دردی کے ساتھ مجھے اٹھاتے اور دوسرے کو مار دیتے،، جوابا واپس پھینکنے سے پہلے فریق مخالف مجھے ایک تھپڑ مار کر بدلہ لیتا اور واپس اگلے کو مار دیتا،، بعض دفعہ اگلا فریق بیٹھ جاتا تو ھم سیدھے جا کر دیوار کو لگتے ،، عمرے میں ٹنڈ کرانے کے بعد سب سے پہلے وھی مورچے کٹی پہاڑی کی طرح نظر آتے ھیں –
اب دادا جان آئستہ آئستہ بھٹیوں کی مسجد کی طرف چلنا شروع ھو گئے،جبکہ ھم منتیں کرتے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رھے، مسجد پہنچ کر دادا جان تو وضو کرنے والی جگہ بیٹھ گئے،وضو خانے پر پرانے زمانے کی چھت تھی،جس میں ابابیلوں نے گھونسلے بنائے ھوئے تھے ، دادا جی کے بالمقابل کوزے رکھنے والی جگہ پر ھم بیٹھ گئے، باھر کی گرمی کے مقابلے میں اندر موسم خنک تھا ھوا دراوزے سے داخل ھوتی اور ٹھنڈی ھو جاتی،، بندے کو خواہ مخواہ نیند آ جاتی، ظہر ابھی نہیں ھوئی تھی اور دادا جی کا پروگرام نماز سے پہلے گھنٹہ بھر آرام کرنے کا تھا،مگر پتہ نہیں لوگوں کو کسی کا حق مار کے نیند کیسے آ جاتی ھے؟
ھم دادا پوتا آمنے سامنے بیٹھے تھے، درمیان میں وضو والی نالی تھی جو دوفٹ چوڑی اور تقریباً ڈھائی فٹ گہری تھی، ھم تھے کہ ھر قسم کی منت کر کے تھک چکے تھے، اور دادا تھے کہ ڈانٹ ڈانٹ کے تھک چکے تھے،،دادا جی لیٹ گئے اور ٹائر کو اپنے گھٹنے میں پھنسا کر ٹانگ دھری کر لی، اور حکم صادر فرمایا میری ٹانگیں دباؤ ! دل تو ھمارا ان کا گلا دبانے کو کر رھا تھا مگر مجبوراً ٹانگیں دبانا شروع کیا،ھم اس کو ٹائر واپس دینے کی شرط سمجھ کر صدقِ دل سے دبا رھے تھے،،مگر جوں جوں مذاکرات آگے چل رھے تھے،دادا جان کی ھٹ دھرمی مزید بڑھتی جا رھی تھی بلکہ اب انہوں نے میری فریاد کا جواب دینا بھی بند کر دیا تھا، میں جب ٹانگیں دباتا دباتا اس جگہ پہنچتا جہاں ٹائر لپٹا ھوا تھا تو عجیب سی کیفیت طاری ھو جاتی ،، جونہی میرا ھاتھ ٹائر کوچھوتا ایک پھریری سی بدن میں پیدا ھوتی ،جس کو پنجابی میں ” کچیچی ” کہتے ھیں،،
کوئی بے بسی سی بے بسی تھی،میرے سامنے میری دنیا لٹے گی ! آخر جب چار پانچ بار کچیچی چڑھ چکی اور دادا غنودگی میں چلے گئے تو میں نے ایکشن کا فیصلہ لیا،، ٹانگیں دباتے دباتے میں اپنی پوزیشن تبدیل کرتا چلا گیا، اب میری پوزیشن بالکل ایسی ھی تھی جیسی دوڑ میں حصہ لینے والے اختیار کرتے ھیں،، دائیاں گھٹنا کھڑا جب کہ بائیاں پاؤں ایکسٹریم میں پیچھے جما ھوا، جبکہ بدن چیتے کی طرح آگے کو جھکا ھوا،، میرا خیال یہ تھا کہ ٹائر کھینچوں گا اور نکل بھاگوں گا ، مگر سرپرائز ھو گیا،جونہی میں نے ٹائر پہ ھاتھ مضبوط کیا اور اسے اپنی طرف پوری جان سے کھینچا تو دادا جان بھی ٹائر کے ساتھ ھی گھسٹے چلے آئے کیونکہ انہوں نے ٹائر کو اتنی سختی کے ساتھ گھٹنے میں پھنسایا ھوا تھا کہ 45 کی ڈگری سے اسے نکالنا ممکن نہ تھا،،مگر ھاتھ میں نے بھی پوری جان سے ڈالا ھوا تھا چھوڑنے کا میرا ارادہ بھی نہیں تھا !
خیر دادا جان جو گھسٹے تو سیدھے نالی میں چت جا پڑے – ان کے نالی میں گرنے کی دیر تھی کہ ٹائر کا زاویہ 90 بن گیا اور ٹائر نکل کر میرے ھاتھ میں،، بس کیا بتاؤں ویسی خوشی میں نے یو اے ای میں ڈرائیونگ لائسنس ھاتھ میں لیتے ھوئے محسوس کی تھی، ٹائر میرے ھاتھ میں تھا اور چیتا میرے پاؤں میں،مجھے پکڑ لینا اب دادا جی کے بس کی بات نہیں تھی، انہیں تو نالی سے نکلتے نکلتے بھی کافی وقت لگا ھو گا، میں مسجد سے نکلا اور اپنے گھر آکر بیٹھک کے اوپر والی چھوٹی سی کوٹھی میں جا چھپا جو سکھوں نے اسٹور کے طور پر بنا رکھی تھی،،میں ان کو دعا دے سکتا تو ضرور دیتا مگر پہلے ھی منڈیلا کے لئے کی گئی دعائے مغفرت ابھی تک گلے پڑی ھوئی ھے،
کیونکہ وہ کوٹھڑی ھماری بہترین جائے پناہ تھی میرے سوا اس میں اور کوئی چڑھ بھی نہیں سکتا تھا ،اور نہ کسی کا دھیان اس طرف جاتا تھا کہ یہاں کوئی چھپ سکتا ھے،
تھوڑی دیر گزری تو دادا جان کی گھن گرج سنائی دی اور وہ گالیاں دیتے گھر میں داخل ھوئے، دادی جان نے باھر نکل کر پوچھا کیا ھوا؟ میں نے سر نکال کر دادا کی طرف دیکھا،کیچڑ سے لتھڑے ھوئے تھے، دادا کی ھیئت کذائی نے دادی کو پریشان کر دیا تھا،حنیف نے مجھے مسجد کی نالی میں گرایا ھے دادا نے تھوڑا سا جھجھک کر جواب دیا،، دادا کا یہ کہنا تھا کہ میں نے دادی جان کے اوپر کے دو ٹوٹے ھوئے دانتوں سے ھنسی کا فوارہ چھوٹتے دیکھا،، یہ دانت دادا ھی کے توڑے ھوئے تھے ،میری ساری ٹینشن دادی جان کے قہقے کے ساتھ ھی ھوا بن کر اڑ گئ،،میری دادی خوش ھے تو پھر کوئی بات نہیں،، دادی کی ھنسی نے دادا کو مزید گرم کر دیا،مگر اب دادی نے ان کو چھیڑنا شروع کیا ” ھائے اللہ وہ چپہ سا بچہ آپ کو کیسے گرا کر ھاتھ سے نکل گیا؟ آپ تو گائے کو ھاتھ سے نہیں نکلنے دیتے تھے،،؟
اچھا وہ آئے گا تو میں اس کا علاج کرتی ھوں،مگر اب آپ بھی منڈے کھنڈے کے ساتھ متھا لگانا چھوڑ دیں،، دادا جان کے جانے کے بعد میں نیچے اترا، دادی اپنی گائے کی طرف منہ کیئے کھڑی تھیں،، میں آئستہ آئستہ ان کے پاس جا کر کھڑا ھو گیا، انہوں نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا اور پیار سے اپنے ساتھ دبا لیا ،،
قاری حنیف ڈار بسلسلہ نشر مکرر