بعض دفعہ بندہ مذھب کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہوتا ہے، والد رات دن نوافل میں جٹا رہتا ہے۔ بچیاں پڑھی لکھی ہیں یہانتک کہ ڈاکٹر بن گئ ہیں اچھے اچھے رشتے آتے ہیں، ان کے یونیورسٹی کے ساتھی رشتے لا رہے ہیں، مگر وہ خبیث چونکہ بیٹیوں کی کمائی کھا رہا ہوتا ہے لہذا ان کو بیاہنا ہی نہیں چاہتا،لہذا مصلے سے ہی جواب دیتا ہے کہ جب اللہ راضی ہو گا تو شادی ہو جائے گی۔ اللہ نے اس پر ذمہ داری ڈالی ہے، و انکحوا الایامی منکم۔ اور وہ خبیث چاہتا ہے کہ اللہ خود نیچے اتر کر شادی کرائے تو کرائے میں کرانے والا نہیں۔ اس کے یہ نوافل اور مذھبی بہروپ،سہ روزے اور چلے اولاد کو مذھب سے ہی بیزار کر دیتے ہیں ۔ پھر وہ پنکھے کی بجائے قرآن کو کیوں دیکھے گی؟
یاد رکھیں مذھبی گھرانوں کے ڈپریشن میں مذھب کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، وہ والدین کی منافقانہ مذھبیت سے متنفر ہوتے ہیں ایسی کیفیت میں کسی مولوی کا ان کے والد کو سمجھانے کی بجائے یہ کہنا فلاں آیت کا ورد کریں اور فلاں وظیفہ کریں ان کو دین سے برگشتہ اور مزید مشتعل کر دیتا ہے اور وہ الحاد کی طرف نکل جاتے ہیں۔
پس تحریر ۔
باجی نیر تاباں کا خودکشی کرنے والی بچی سے سوال کہ "تمہیں پنکھے کی بجائے گھر میں پڑا قرآن نظر کیوں نہیں آیا؟