دیہات میں جنسی تعلیم کی کلاسز عموماً کھیتوں کھلیانوں میں ڈنگر چراتے ہوئے ہی لگا کرتی تھیں۔ یا تالابوں پر کپڑے دھوتے ہوئے جہاں کی تمام کارروائی ان کیمرہ ہوا کرتی تھی, کپڑے دھوتی غیر شادی شدہ لڑکیاں وہیں بائیو کی کلاس اٹینڈ کرتی تھیں, شادی شدہ خرانٹ عورتیں جب اپنے یہاں کی وارداتیں کبھی اشارے کنائے اور کبھی کھلے عام بیان کرتیں تو لڑکیاں میسنی بن کر یوں ظاہر کرتیں گویا انہیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں، مگر پروفیسرز جانتی تھیں کہ اسٹوڈنٹس کے کان اور دھیان ادھر ہی لگے ہوئے ہیں۔
لڑکے عموماً ڈنگر کھلے چھوڑ کر کسی درخت کے نیچے بیٹھ جاتے اور کوئی ناں کوئی انکل سلطان محمود غزنوی کے سترہ حملوں کی طرح اپنی آپ بیتی شروع کر دیتا۔ لڑکے خوب انجوائے کرتے اور کوشش کرتے کہ وہ بھی اپنے آپ کو کم از کم نادر شاہ یا شیر شاہ سوری ثابت کر دیں مگر ان کےحملوں کی ہیروئین عموماً جانور ہی ہوتی۔ یوں بچوں کو سکول کے کلاس روم سے زیادہ دلچسپی اس درخت سے ہوتی جہاں سینیٹ کی طرح اوپن ڈسکشن ہوتی تھی ۔
گرمیوں کے دن تھے گندم کی کٹائی چل رہی تھی، ایسے میں ہم اپنے پندرہ سالہ کزن کے ساتھ اعزازی طور پر ڈنگر چرانے چلے گئے۔ اس موسم میں بیریوں کے بیر پک چکے ہوتے ہیں اور بہت میٹھے ہوتے ہیں۔ ہمارا مطمع نظر وہی بیر تھے۔ کزن نے ہمیں کافی سارے بیر اکٹھے کر کے دیئے کہ آرام کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ، ہم بیر کھانے لگ گئے تھوڑی دیر بعد پلٹ کر دیکھا تو کزن ایک جانور پر ھاؤس جاب کر رہے تھے، ہم نے بیر نیچے رکھ دیئے اور کزن کے نہ نہ کرنے کے باوجود ان کے پاس جا کھڑے ہوئے، اور اسی تجسس سے کزن کو نظر ٹکا کر دیکھنے لگے جیسے بچے اسکول لیب میں اپنے ٹیچر کو تجربات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
کزن کے چہرے کی کیفیت سے لگ رہا تھا کہ وہ سخت اذیت سے دوچار ہیں وہ تو کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کمبل پھر ان کو کھینچ لیتا ہے۔ اس کشمکشِ نے ہم کو انتہائی خوفزدہ کر دیا اور ہم نے زور زور سے رونا شروع کر دیا، جس پر کزن نے ہمیں گالیاں اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں ۔ ہم نے مزید زور سے چیخیں مارنا شروع کر دیں، ارد گرد کے کھیتوں میں گندم کاٹنے والی ممتا کی ماری خواتین نے ہاتھ پی کیپ کی طرح ماتھے پر ٹکا کر چاروں طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ بچہ کہاں چیخ رہا ہے۔ کچھ نے سوچا ہو گا کہ کوئی جن بھوت ہے کیونکہ عورت کی آواز میں چڑیلیں اور بچے کی آواز میں جن بھوت ہی روتے ہیں۔ ایسا دیہات میں مشہور ہے ۔
آخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ” کے مصداق ہماری چیخ و پکار سے ڈر کر جانور نے کزن کو چھوڑ دیا۔ اور کزن نے ٹھیک ہماری گدی پر ایک ہاتھ جما کر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ واپسی کے سفر میں کھیت کھلیان والوں نے ہمیں دیکھا تو کزن سے پوچھا کہ یہ بچہ کیوں رو رہا تھا؟ کھوتی کھب گئی تھی اس کو دیکھ کر گبھرا گیا تھا کزن نے نہایت اعتماد سے جواب دیا پوچھنے والوں نے بھی استفہامی انداز میں سر ہلا دیا کیونکہ ان کی کھوتیاں بھی اکثر و بیشتر کھبا کرتی تھیں۔۔
گاؤں میں داخل ہوتے ہی کزن تو حویلی ڈنگر باندھنے چلے گئے جب کہ ہم کزن کے گھر چلے گئے، جہاں صحن میں کزن کی دادی۔ ابا اور امی، چچا اور چچی اور ان کے بچے بیٹھے سہ پہر کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ہم نے داخل ہوتے ہی نقطہ اعتراض پر شاھد خاقان عباسی کے دبنگ انداز میں فریاد شروع کر دی۔ دو چار جملوں کے بعد ہی ساری مجلس کو اندازہ ہو گیا کہ صورتحال کافی نازک ہونے جا رہی ہے۔ لہٰذا ہمارا منہ بند کرنے کے لئے پیمرا ایکشن میں آ گیا۔ مردوں نے بلند آواز سے ڈانٹ ڈپٹ کر کے ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کی تو خواتین نے لمبر ون کی طرح فزیکل ایکشن کا انتخاب کیا۔ کزن کی امی نے جوتا پھینک کر ہمارا تراہ نکالا، چچی نے اپنے دوپٹے کا گولہ بنا کر ہم پر پھینکا اور دادی نے چلم پیتے پیتے چلم کی نڑی ہم پر پھینک ماری، ہمیں تعجب اس بات پر تھا کہ کھیتوں میں کزن کی حمایت میں چیخ و پکار کی تو اس نے بھی گالیاں دیں اور مارا۔اب گھر والوں کو فریاد کی ہے تو وہ بھی گالیاں دے رہے ہیں اور مار بھی رہے ہیں۔ کرنے والے کو کوئی پوچھتا نہیں بتانے والے کو سب مارے جا رہے ہیں۔ مگر ہم نے سب کی کوششوں کے باوجود حامد میر کی طرح روتے دھوتے کلائمکس بیان کر کے ہی چھوڑا۔ اس کلائمکس کے چند معصوم جملوں نے تو محفل ہی لوٹ لی،مرد مصنوعی غصہ چھوڑ کر ہنسی سے لوٹ لوٹ ہو گئے اور خواتین ننگے پاؤں ہی باھر کو لپکیں ۔ بعد میں وہ جملے کرائسس میں ہمیشہ ہمارے قول زریں کے طور پر استعمال کیئے جاتے اور فریقین کی ٹینشن کو ریلیز کر دیتے۔
بچپن کی ڈائری سے ایک اقتباس
#دیہات_نامہ