میں اسلام آباد میں الیف الدین ترابی صاحب کے گھر بیٹھا ھوا تھا کہ ڈرائیور آیا ،،، اسے کسی کام سے بھیجا گیا تھا ،، پیٹرول کا میٹر چیک کیا گیا ،، 9 کلومیٹر متعلقہ روٹ سے زیادہ نکل رھے تھے، ترابی صاحب نے پوچھا کہ جس جگہ آپ کو بھیجا گیا تھا وھاں تک کا فاصلہ کتنے کلومیٹر بنتا ھے ؟ جی آنے جانے میں 18 کلومیٹر ،، پھر یہ 27 کلومیٹر کیسے دکھا رھا ھے ؟ جی میں وہ سنٹر اسپتال اپنے ایک دوست کو دیکھنے گیا تھا ، ڈرائیور نے نظریں نیچی کر کے جواب دیا ؟ آپ ضرور دوست کی تیمار داری کریں ،یہ ثواب کا کام ھے مگر آپ اپنے پیسے سے دوست کو مل کر ثواب کما سکتے ھیں ،، یہ پیسے لوگوں کی امانت ھیں اور ھمیں اللہ کے سامنے پیسے پیسے کا حساب دینا ھے اور وہ بھی تانبے کی طرح گرم زمین پر کھڑے ھو کر ،، ترابی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے اسے سمجھایا ،،
اس دن میں نے جانا کہ محاسبہ کس کو کہتے ھیں ،،
قیامت کے محاسبے کا خوف کئ دن مجھ پر حاوی رھا ،، مجھے بڑی شدت سے احساس ھوا کہ دینے والا تو دے کر فارغ ھو جاتا ھے ، لینے والوں کی نیندیں اڑی رھتی ھیں !!