معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شادی شدہ نا محرم عورت کے گھر اپنی چھوٹی چھوٹی بچیاں اکیلی چھوڑ کر رات کے تیسرے پہر کیا کر رہے تھے؟ واضح رہے تازہ تازہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تھا۔ جب کہ ام ہانی کا شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا؟ وہ فتح مکہ کے بعد شام فرار ہو گیا اور حالت کفر میں ہی مرا۔ ام ہانی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئیں اور اللہ پاک نے سورہ احزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام ہانی سے شادی سے منع کر دیا یہ شرط لگا کر کہ آپ اپنے چچا, ماموں اور پھوپھیوں کی اسی بیٹی سے شادی کر سکتے ہیں جس نے ھجرت کی ہو۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طالب سے ام ہانی کا ہاتھ مانگا تھا مگر ابوطالب نے توہین آمیز ریمارکس کے ساتھ یہ رشتہ مسترد کر دیا تھا اور اپنے ماموں کے بیٹے ھبیرہ کو جو کہ طائف کا سردار تھا رشتہ دے دیا۔ ھبیرہ یہ بات جانتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شدید دشمنی میں ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ جیسا کہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ مخالفین کی جن باتوں کی یا ازواج مطہرات کے معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینے کا حق بھی تھا آپ وہاں بھی اپنے اعلی اخلاق کی بنیاد پر صبر کر جاتے تھے ، جس کی وجہ سے اللہ پاک کو جوابا کچھ کہنا پڑتا تھا، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس بات کو فراموش کر گئے مگر رب کی غیرت اس گستاخی پر چپ نہ رہی ، جونہی مکے کی فتح کے آثار پیدا ہوئے اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلہ رحمی کی عادت کے مدنظر اس نکاح کی راہ روک دی۔ لہذا جب ام ھانی سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد آپ کو نکاح کی پیش کش کی تھی؟ تو ام ھانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ھجرت کو شرط بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دینے کے بعد اس قسم کی پیشکش کا کیا امکان بچتا تھا؟؛ قرآن تو ببانگ دہل اعلان فرماتا ہے کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام۔ پاک ہے وہ ذات جو لے گئ اپنے بندے کو راتو رات مسجد حرام سے۔۔۔ پھر کہنا کہ” ام ہانی کے گھر سے ” سیدھی سیدھی قرآن کی تکذیب ہے۔ یہ قوالوں کا دین نہیں قرآن کا دین ہے۔