استاذ محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب ایام اور صیام کے مسئلے کو قرآن سے الگ کر کے دیکھتے ہیں ، چونکہ ان کا مؤقف ہے کہ دین کی سنت قرآن سے قدیم چیز ہے ، لہذا ایام میں روزے کی ممانعت کو سنت ابراھیمی سے اخذ کیا جائے گا ۔
یہاں اشکال یہ ہے کہ حائضہ کے بارے میں تورات میں تفصیلی احکام موجود ہیں ،جن میں حائضہ چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتی ، اس کو ایک چٹائی لے کر الگ تھلگ زمین پر بیٹھنا اور لیٹنا ہو گا ۔ جس کو حائضہ چھو لے یا جو حائضہ کو چھو لے وہ سات روز تک نجس رہے گا ، اس حالت میں وہ عبادت گاہ میں بھی داخل نہ ہو گا نہ ہی اس کی عبادت قبول ہو گی ، ساتویں روز وہ اپنے مذھبی سربراہ کہ خدمت میں حاضر ہو کر قربانی پیش کرے گا ، پھر مزہبی پیشوا اس کو پاک کرے گا ۔ گویا یہود نے بھی حیض کے احکام سنت سے نہیں لئے بلکہ ان کے لئے تورات میں نازل کیئے گئے ۔ آسمانی کتاب میں نازل شدہ کو آسمانی کتاب میں ہیں تبدیل کیا جائے گا ، جیسے آئین کی کسی شق کو آئین میں ترمیم کر کے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے قانون کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، تورات میں حیض کے یہ احکام یہود کی فطرت بد کی سزا کے طور پر نازل کیئے گئے جیسا کہ اللہ پاک نے فرنایا کہ "ذالک جزیناھم ببغیھم و انا لصادقون ۔ یہ حرمتیں اور قوانین دائمی نہیں تھے بلکہ تعزیری تھے جن کو اللہ پاک نے قرآن میں تبدیل کر کے آسان بنایا اور ابدیت عطا فرما دی ۔۔ قرآن مجید کے ذریعے تورات کے قانون حیض و نفاس کو صرف مباشرت کی پابندی تک محدود کر دیا ۔ نماز طہارت کے قانون کے تابع معاف ہو گئ اور روزے پر کوئی پابندی نہیں لگائی ۔
ھذا ما عندی والعلم عند اللہ ۔