صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دین میں بھائی بھائی اور یک جان و دو قالب تھے ۔ نماز روزہ ، زکوۃ و حج وغیرہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا ، سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر عبادت کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور آنکھیں سب سے سچا راوی ہوتی ہیں ۔ یہ تو تھا دین کا معاملہ جہاں وہ اذلۃ علی المومنین تھے ۔ انما المومنون اخوۃ کا عملی پیکر تھے ۔
لیکن جب وہ سیاست و حکومت میں آئے تو ان میں بھی پولرائزیشن کا لیول وہی تھا جو آج کل ہم پاکستانیوں میں ہے ۔ ہر ایک کی اپنی رائے تھی جس پر وہ کوئی کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں تھے ۔
ایک طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے فضائل تھے دوسری جان ام المومنین اور طلحہ و زبیر کے فضائل تھے مگر ان سب فضائل کا تعلق دین تک محدود تھا ۔ سیاسی معاملات میں دینی فضیلت کا ریفرینس کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بنیاد میں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خون تھا یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت خون عثمان کا ثمر تھی ۔ امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد کو مشورہ دیا کہ وہ یہ خلافت قبول نہ کریں ،باغیوں کی چھتر چھایا میں کی گئ بیعت کی کریڈیبلٹی پر سوالیہ نشان رہے گا اور خون عثمان کا داغ آپ کے سر لگ جائے گا ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیٹے کو ڈانٹ دیا کہ میں نے فلاں فلاں موقعے پر تو صبر سے کام لیا مگر اب ایسا نہیں ہو گا ۔ جنگ صفین سے واپسی پر امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کو وہ دن اور اپنی بات یاد کرائی کہ میں نے آپ سے کیا کہا تھا ؟ وہی ںات ہو کر رہی ۔
ام المومنین مکہ سے بصرہ کی طرف چلیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے بصرہ کی طرف چل پڑے ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ مکے سے چلے تو یزید خود شام سے نہیں چلا اس نے ابن زیاد کو کوفہ بھیج دیا ۔ مقصد دونوں کا اپنی حکومت بچانا تھا جو اس زمانے میں خلافتِ کہلاتی تھی ۔
جس طرح آج کل ایک ہی گھر میں باپ کی ہمدردیاں ایک پارٹی کے ساتھ ہیں تو بیٹے کی دوسری پارٹی کے ساتھ ، یہی معاملہ اس دور میں بھی تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی عقیل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار سے منسلک تھے ، ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کے ساتھ رہتے ہیں مسئلہ بھی اسی سے پوچھ لینا تھا ۔ عقیل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا دین کے معاملے میں ،میں آپ پر زیادہ بھروسہ رکھتا ہوں ، دنیا کے معاملات میں معاویہ بن سفیان پر ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا بھائی محمد بن حنفیہ یزید کے لشکر میں تھا ۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا شام میں یزید کے یہاں ہی رک گئی تھیں، بہت سارے رشتے اسی ابتری کا شکار تھے جس کی وجہ سے زیادہ تر صحابہ کنفیوز ہو کر اس دنیاوی سیاست سے الگ تھلگ ہو گئے ۔ جن کو ہمارے شیعہ بھائی منافق کہتے ہیں ، حالانکہ ہم آجکل کے حالات میں ان اصحاب کی نفسیاتی کیفیت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ احتیاط کا تقاضا وہی تھا جو انہوں نے اختیار کیا ۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، مگر اتنا عرض کر کے بس کرتا ہوں کہ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آپ دین کے معاملے میں مجھ پر اعتبار کرتے ہیں مگر سیاسی طور پر آپ سب کی اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی پسند ہے جو کہ آپ نے نہایت خلوص اور نیک نیتی سے اختیار کی ہے اور یہ اپ کا بنیادی حق ہے ، آپ کی سیاسی پسند یا نقطہء نظر میرے لئے ہر گز کوئی مسئلہ نہیں ، نہ ہی آپکی کی سیاسی وابستگی کی وجہ سے اپکی محبت اور احترام میری نظر میں کم ہوتا ہے ۔ بس یہی روش آپ سے بھی مطلوب ہے کہ مجھے بھی میرا سیاسی حق استعمال کرنے کا اختیار خوشی خوشی دے دیجئے۔
اس سلسلے میں جو لوگ بھی کمنٹس میں مجھے گالیاں دیتے ہیں جو کہ میری محبت کی وجہ سے ہی آپ کو بری لگتی ہیں اور آپ ترلے کرتے ہیں کہ قاری صاحب آپ سیاست سے دور رہیں بس دینی کام کریں ۔ بھائی یہ پوسٹ اسی لئے لکھی ہے کہ دینی کام کرنے والی بہترین ہستیاں سیاست سے دور نہیں رہیں ۔مارتی بھی رہیں اور مرتی بھی رہیں ، جنہوں نے خود کو بچا کر الگ کر لیا وہ تلوار سے تو بچ گئے مگر لوگ صدیوں سے ان پر اعتراض کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ نیوٹرل کیوں رہے ، امیر المومنین کے شانہ بشانہ باغیوں سے لڑے کیوں نہیں ؟ اس لئے کہ وہ ان کو باغی سمجھتے ہی نہیں تھے تو پھر ان سے لڑ کیسے سکتے تھے ؟
میری پسند کو آپ امپورٹڈ کہتے ہیں ، جبکہ میں آپکی پسند کو پلانٹڈ سمجھتا ہوں ، اور ہم دونوں ایک دوسرے کی پسند کو ناپسند کرتے ہیں ۔
لہذا پسند اپنی اپنی ۔نصیب اپنا اپنا پر سمجھوتا کر لیتے ہیں ۔ جو تخت پر بیٹھ جائے اس کو تسلیم کر کے ملک کو آگے چلنے دیں ۔
ایک جوان کی شادی سے ھفتہ دس دن پہلے ایک سیانی عورت نے اس کو ایک طرف کر کے پوچھا کہ بیٹا اگر ماں اور بیوی میں جھگڑا ہو گیا تو کس کا ساتھ دو گے ؟
جوان نے سر پہ رکھی ٹوپی کو ایک دو دفعہ گھمایا گویا کہ ڈش کا رخ گھما کر چینل ٹیون کر رہا ہو ۔ پھر مسکرا کر بولا” جہڑی جت گئ اسے نال”
جو بھی جیت گئ اسی کے ساتھ ۔