جب مرد کے پاس چار شادیوں کا آپشن موجود ھو ، پھر بھی اس کی جنسی ضرورت کے وقت عورت کا بلا عذر شرعی انکار کر دینا ، اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں کی لعنت کا باعث ھو سکتا ھے – تو عورت جس کے پاس اس منحوس مرد کے سوا اور کوئی آپشن بھی نہ ھو اور وہ مرد اس کی جنسی ضرورت سے بخوبی آگاہ بھی ھو پھر بھی اس کی ضرورت کو فرض سمجھ کر پورا کرنے کی بجائے یہ کہہ کر پہلوتہی کرے کہ میری اس بارے فیلنگ ہی نہیں بنتیں تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کیسے نہ ھو ؟ کیا ایسا مرد عورت کو یہ پیغام دیتا ھے کہ جس کی فیلنگز ترے بارے میں بنتی ہیں تو اس سے ضرورت پوری کر لے ؟ اگر وہ نامرد ہے تو اس کو خود سے اس عورت سے کھل کر بات کر لینی چاہیے ،، کم از کم وہ وڈیرے انصاف تو کرتے ہیں جو اپنی عورت کو کہتے ہیں کہ حویلی مردوں سے بھری ہوئی ہے کسی سے بھی تعلق رکھ سکتی ھو مگر ہمارے یہاں جو طلاق مانگتی ھے اس کی لاش بھی کسی کو نہیں ملتی ـ
کیا خدا صرف مردوں کا خدا اور صرف ان کی ضرورتوں کا ضامن ھے ؟ وہ لوگ اسلام کو بدنام کرتے ھیں جو عورت کو اونٹ سے اتر آنے اور تنور پر لگی روٹیاں چھوڑ کر شوھر کی خدمت کی حدیثیں سناتے ھیں اور پھر اپنی بار فیلنگز کا بہانہ کرتے ہیں ایسے لوگ اصل میں عورت کو اسلام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتے ھیں ، کوئی عورت بھی بری پیدا نہیں ھوتی ” کل مولودۤ یولد علی فطرہ ” کے مصداق ھر عورت معصوم پیدا ھوتی ھے ، پھر حالات اس کو دوسری ڈگر پر ڈال دیتے ھیں ،،بعض انتہائی دیندار اور مذھبی فکر کی حامل عورتیں شوھروں کے ایسے رویئے کی وجہ سے انتقاماً دوسری طرف نکل جاتی ھیں ، اور کہتی ھیں کہ اب حشر میں دیکھ لیں گے ،اللہ کے عدل کا امتحان لیں گے ،کیونکہ مجھ میں میری ضرورت بھی اس نے پیدا کی ھے اور ایسا شوھر بھی اس نے دیا ھے ،وہ اگر خالق ھے تو میں بھی اسی کی مخلوق ھوں ،جمع تفریق حشر میں کر لیں گے ،،
کوئی قسم کھا کر کہتی ھے کہ شوھر کے ایسے رویئے کی وجہ سے پڑوسی کے ساتھ لگا کر دکھائے گی ،، بڑی بڑی خوفناک کہانیاں ھیں- سوسائٹی میں بگاڑ کی بہت بڑی وجہ خود مردوں کا رویہ ھے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ داڑھیوں کو سنوار کر اور بالوں کو بنا کر رھا کرو ،یہود نے اس پہلو کی طرف توجہ نہیں دی تھی تو ان کی عورتیں باغی اور فاسق ھو گئ تھیں ، وھاں تو صرف داڑھی اور سر کے بالوں کا مسئلہ تھا یہاں تو بنیادی مسائل موجود ھیں ،، جو مرد ازدواجی حق ادا کرتا ھے وہ بھی عموماً اپنی ھی ضرورت پوری کرتا ھے اور عورت کا اسے کوئی خیال نہیں ، عورت کو بھڑکا کر سلگتا چھوڑ جاتا ھے اور پھر بھول جاتا ھے ، یہ بارود کے فیتے کو آگ لگا کر چلے جانے والی بات ھے جو سلگتے سلگتے آخر بارود تک پہنچ جائے گی ، اور وہ انفجار ھو گا جو عورت کو فاجر بنا دے گا ،، کسی کی جوان بچی لا کر دس دس مہینے تمہاری فیلنگز ہی نہیں بنتیں تو کسی کی بیٹی کو لائے ہی کیوں تھے ؟ روٹی تو وہ باپ کے گھر اس سے زیادہ عزت کے ساتھ کھا رہی تھی ،،
اولاد عورت کی مجبوری اور پاؤں کی زنجیر بن جاتی ھے ، جن کی وجہ سے وہ خلع کا آپشن اختیار نہیں کرتی ، پھر عورت کے مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ھوتا ھے جو گھر میں فساد کا باعث بنتا ھے چونکہ اولاد بھی اس چڑچڑے پن کا بنیادی سبب نہیں جانتی وہ بھی سمجھتی ھے کہ ھماری ماں کی غلطی ھے ،بریک اپ ھو جائے تب بھی وہ ماں کو قصوروار سمجھتی ھے یوں عورت اولاد کی مجرم بھی بن جاتی ھے ، اور ابا جی ھیرو بن جاتے ھیں عورت شوھر سے اپنی ضرورت کا اظہار کبھی بھی اپنی زبان سے نہیں کرتی بلکہ بعض دفعہ ضرورت کے باجود ناز کا معاملہ کرتی ھے یہ اللہ پاک کی طرف سے لگائی گئ حیاء کی مہر ھے ، لیکن جب عورت منہ سے بول کر اپنی ضرورت کا اظہار کرنے پر مجبور ھو جائے تو سمجھ لینا چاھئے کہ اب وہ مضطر ھو گئ ھے اور ازداجی زندگی کی گاڑی کا ٹائ راڈ ٹوٹ گیا ھے اور گاڑی کسی گہری کھائی میں بھی گر سکتی ھے ،عورت کو اس مقام پر مت لائیں کہ اللہ پاک کے فرمان کے مطابق ‘”وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ){33}النور
اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور مت کرو حالانکہ وہ پاکباز رھنا چاھتی ھیں ،پھر اگر تم ان کو بدکاری پر مجبور کرو گے تو بے شک اللہ ان کی مجبوری کو دیکھتے ھوئے غفور اور رحیم ھے ،،
جی جناب اپنی بیویوں کو بدکاری پر مجبور مت کرو حالانکہ انہوں نے تم سے نکاح پاک باز رھنے کے لئے کیا تھا ،، اپنی ضرورت کے وقت تم بھیڑیئے بن جاتے ھو اور کوئی طریقہ تم چھوڑتے نہیں ھو ،، اور اس کی ضرورت کے وقت تکیہ منہ پہ رکھ لیتے ھو ، تف ھے تمہاری مردانگی پر – کچھ لوگ یہ سوال کرتے ھیں کہ وہ جو بیرون ملک پردیس میں رھتے ھیں ان کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ تو گزارش ھے کہ وہ بیوی کی رضامندی سے مشروط ھے نیز جب دونوں ایک ھی عذاب میں مبتلا ھوتے ھیں تو صبر بھی آ جاتا ھے نیز دور رہ کر گزارا بھی ھو ھی جاتا ھے ، ایک ھی گھر اور چارپائی پر رہ کر دور ھونا برداشت نہیں ھوتا ،، آپ پر سارے دن کا روزہ اتنا بھاری نہیں ھوتا ،جتنا وہ آدھ گھنٹہ ھوتا ھے جس میں آپ افطاری سامنے رکھ کر بیٹھے ھوتے ھیں ، اور کھانے والی چیزوں کی جگہیں تبدیل کر کر کے وقت گزار رھے ھوتے ھیں ـ
قاری حنیف ڈار سیلیبریٹنگ حیا ڈے