اضطرار کی حالت مجبوری کی حالت ھوتی ھے ! جس میں حالات آپ کو آپکی مرضی کے خلاف مخالف سمت میں گھسیٹتے چلے جاتے ھیں جس طرح ھوا کسی چیز کو اپنی مرضی کی سمت اڑائے چلی جاتی ھے ! مضطر اصل میں حالات کے ھاتھوں یرغمال ھوتا ھے اور وھی کرنے پر مجبور جو اس سے یرغمال بنانے والا طلب کرتا ھے !
اللہ پاک نے حرام چیزوں کی ایک فہرست دینے کے بعد جس میں خنزیر کا گوشت بھی ھے !
آخر میں فرمایا ” سوائے اس کے کہ جس کے لئے تم مجبور ھو جاؤ ” الا ما اضطررتم الیہ ”
اس میں شرط یہ رکھی گئ کہ نیت اللہ کے قانون سے بغاوت کی نہ ھو ،، رغبت سے نہیں کراھت سے کیا جائے ،، اور جتنا ضرورت ھو بس اُتنے پر ھی اکتفا کیا جائے،، اور اسے عادت نہ بنا لیا جائے ! بلکہ اس سے نکلنے کی سبیل سوچتے رھنا چاھئے !
ان شرائط کے ساتھ مضطر پر کوئی گناہ نہیں !
اس کی سب سے بڑی دو مثالیں ھیں !
کلمہ کفر اور حالتِ اضطرار !
سورہ النحل کی آیت 106 میں حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کے واقعے کے پس منظر میں کلمہ کفر کی اجازت دے رھا ھے، اس شرط پر کہ دل ایمان پر مطمئن ھو ،مگر زبان کلمہ کفر کہنے پر مجبور ھو ! جناب عمارؓ بن یاسرؓ کو مشرکین مکہ ان کے والد اور والدہ سمیہؓ کو وحشیانہ طریقے سے شہید کرنے کے بعد اٹھا لے گئے اور انہیں پانی میں طویل غوطے دیئے ،جن سے ان کی عقل مختل ھو گئ ،، وہ ان سے مطالبہ کر رھے تھے کہ وہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کریں ! کافی دیر کی مزاحمت کے بعد حضرت عمارؓ نے نبی کریمﷺ کے بارے میں ان کے مطلوبہ جملے بول دیئے ، جس پر انہوں نے انہیں چھوڑ دیا اور عمارؓ سیدھے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور سارا ماجرا بیان کیا ! اس پر اللہ تعالی نے فرمایا ” جس نے کفر کیا اللہ کے ساتھ ایمان لانے کے بعد ” سوائے اس کے کہ جس کو مجبور کر دیا جائے لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ھو ” ( النحل 106 )
بدکاری اور اضطرار !
غلاموں سے کام کروانا آقـاؤں کا بزنس تھا ! مگر کچھ لوگوں نے ایکسٹرا لونڈیاں خرید کر ان سے پیشہ کرانا شروع کر دیا اور اس کو جائز بھی سمجھنا شروع کر دیا ! اس پر اللہ پاک نے انہیں حکم دیا کہ وہ کنیزوں سے پیشہ کرانا بند کر دیں اور اگر کسی لونڈی کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اللہ پاک ان کی مجبوری کو دیکھتے ھوئے ان لونڈیوں کے ساتھ تو شفقت اور بخشش کا معاملہ کرے گا ،، مگر اس بدکاری کا وبال ان کو مجبور کرنے والوں کو بھگتنا ھو گا ( النور 33 )
اضطرار جس طرح افراد کا ھوتا ھے اسی طرح قوموں کا بھی ھوتا ھے !
اس وقت ھم جس سب سے بڑے اضطرار سے گزر رھے ھیں اس کا نام سود ھے ! ایک طرف اس کی تباہ کاریاں ھیں تو دوسری طرف اس کی گرفت کا شکنجہ ھے !
سود کے بارے میں حکم شروع سے ھی افراد کو دیا گیا ھے اس لئے کہ اس زمانے میں کوئی سودی ادارہ موجود نہیں تھا اور نہ ھی صدیوں تک قائم ھوا ،، افراد کو ھی مخاطب کیا جاتا رھا کہ وہ اس لعنت سے بچیں،، چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں،، اسراف و تبذیر سے پرھیز کریں ! خواھشات کے عفریت کا نشانہ نہ بنیں ! لوگوں کو ترغیب دی گئ کہ وہ قرضِ حسنہ دیں اور اس قسم کے قرض کے فضائل بیان کیئے گئے، دوسری جانب ایمان والوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال دوسروں کی مدد کے لئے استعمال کریں ! عمر فاروقؓ نے پبلک الاؤنس مقرر کر دیا تھا یوں لوگ کم از کم اپنی بنیادی ضرورتوں کے بارے میں بے فکر ھو گئے !
موجودہ صورتحال یہ ھے کہ سودی ادارے ایک بین الاقوامی عفریت بن چکا ھے جس کے سامنے سپر پاورز بھی ایک بھیگی بلی کی حیثیت رکھتی ھیں ،، ھم تو پیتے ھی نہیں بلکہ کھاتے بھی سود پر قرض لیا ھوا ھیں ،، اور اربوں ڈالرز کے مقروض ھیں،جس کے سود کی ادائیگی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے مطابق ھمیں ھر حال میں کرنی ھے ! اور جس سے انکار کا مطلب اجتماعی خودکشی کے سوا کچھ نہیں ! جو ھم ھاتھوں اور جھولیوں میں نوٹ بھرے پھرتے ھیں ،،یہ صرف ایک گھنٹے کے اندر کاغذ کے بے مصرف ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں رھتے ،، جونہی ھم اپنے کیئے گئے معاھدوں سے منکر ھوں گے ،ھمیں ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں ھمارے ساتھ تجارت ممنوع ،، جہازوں کی آمد و رفت ممنوع ،،یہانتک کہ حاجیوں کی فلائٹس بھی نہیں اڑ سکیں گی ،، کوئی بینک ھمارے کریڈٹس قبول نہیں کرے گا،، ھم پیناڈول کی ایک گولی کے لئے بھی مواد باھر سے امپورٹ کرتے ھیں اور وہ بھی ڈالرز میں ،،ھماری ساری پروڈکٹس اسی قسم کے درآمد کردہ پیٹنٹ مواد کی بنیاد پر بن رھی ھیں ! یہانتک کہ تیل صاف کرنے اور کھاد بنانے والے کیمیکلز بھی ! گویا پورا ملک انارکی کا شکار ھو جائے گا،، روپے کوئی قبول کرے گا نہیں اور عوام جان بچانے کے لئے ذخیرے اور دکانیں لوٹنے پر مجبور ھو جائیں گے ! یہ خانہ جنگی اور گینگ وار کی ابتدا ھو گی ،،
وہ ممالک جو کسی کے ایک ڈالر کے بھی مقروض نہیں تھے اور جن کی ایک دن کی کمائی ھمارے پانچ سال کے بجٹ سے زیادہ ھے وہ بھی تیل کے عوض ڈالرز کی بجائے گندم اور پیاز خریدنے پر مجبور ھو گئے اور آخر کار چار پانچ سال کی پابندیوں کے بعد سو جوتوں کے ساتھ سو گنڈے بھی کھانے پر مجبور ھو گئے ! اس میں لیبیا ،عراق ،اور ایران کا ایٹمی کارڈ سب شامل ھیں،، جب لیبیا اور عراق بین الاقوامی پابندیوں کا شکار تھے تو ان کی ائیر لائنز کو کسی ملک مین اترنے کی اجازت نہیں تھی،، سعودیہ ان کی حج فلائیٹس کو بھی اپنی حدود میں داخل نہیں ھونے دے رھا تھا اور لیبیا کے حاجی ھفتوں بسوں پر سفر کر کے سعودیہ پہنچتے تھے،، اور معاملہ بھی صرف ایک جہاز کا تھا !
آج کوئی چیز بینکنگ ذرائع کے علاوہ نہ درآمد کی جا سکتی ھے اور نہ برآمد ! اسلامی بینکگ صرف اتنی ساری اسلامی ھے جتنا فاصلہ آپ کے واش بیسن کے پانی کو کموڈ کے پانی میں ملنے تک طے کرنا پڑتا ھے ! یعنی کوئی میٹر ڈیڑھ میٹر،، سارے بینک چاھے وہ اسلامی ھوں یا غیر اسلامی اپنی دن بھر کی کمائی شام کو سینٹرل بینک میں مارک اپ پر جمع کراتے ھیں ،، ملک کا سینٹرل بینک یہ ساری کمائی سیٹی بینک میں مارک اپ پر جمع کرا دیتا ھے ،، یوں اگلے دن 9 بجے وھاں سے ملنے والا سود بقدرِ جُثہ اسلامی اور غیر اسلامی بینکوں کو چھٹانک چھٹانک اور تولہ تولہ دے دیا جاتا ھے،، امارات میں جہاں اسلامی بینکوں کے پاس ڈھیر سارا سرمایہ ھے اور دنیا بھر کا بینکنگ ٹیلنٹ ان کے ھاتھ بِکا ھوا ھے،، آپ کو تعجب ھو گا کہ یہاں کے اسلامی بینکوں اور اسلامی تکافل کے اداروں میں 70٪ اسٹاف ھندو ھے،، اپنے مفتی دوست سے جو تکافل کے ایک اسلامی ادارے میں مفتی ھیں اور 20 ھزار درھم تنخواہ لے رھے ھیں ،، انہوں نے جب مجھے حقائق سے آگاہ کیا تو میں نے ان سے سوال کیا کہ اسلامی اداروں میں ھندوؤں کا وجود کیونکر ممکن ھوا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں میں تکافل کا تجربہ نہیں ھے،، پوچھا تجربہ کیوں نہیں ھے ؟ انہوں ساتھ بیٹھے ھوئے میرے استاد مفتی ،،، صاحب کی طرف دیکھا جو کہ کافی متشدد ھیں اور مسکرا کر جواب دیا ھمارے فتوؤں کی وجہ سے مسلمان اس فیلڈ میں کام نہیں کرتے اس طرح ھم ھندؤں کے رحم وکرم پر ھیں،، حالانکہ مفتی صاحب نےسر سے پاؤں تک جو لباس اور جوتے پہنے ھوئے تھے وہ سودی فیکٹریوں میں ھی بنے ھوئے تھے،، مسجد کے امام کا مصلی، مسجد کی صفیں تسبیح کے دانے اور دھاگہ،منبر کی لکڑی اور پالش ، لاؤڈ اسپیکر اور ایمپلی فائر ،مسجد کی لائٹیں اور ڈیکوریشن کا سامان ،، حمام کے لوٹے اور ٹونٹیاں ،، جن ٹائلوں سے مسجد اور مینار چم چم کر رھے ھیں وہ سب سودی فیکٹریوں کا کمال ھے،، جس کاغذ پہ فتوی لکھا جاتا ھے وہ بھی سودی فیکٹری میں تیار ھو کر سودی نظام کے تحت خریدا اور بیچا گیا ھے – کوئی امام نہیں کہتا کہ وہ سودی کارپٹ پہ نماز پڑھنے کی بجائے ریت اور کنکریوں پر نماز پڑھ لے گا۔ آخر نبیﷺ نے بھی تو مٹی پر نماز پڑھ کر ماتھا خاک آلود کیا ھے،مسجد نبوی میں پہلا دیا حضرت تمیم داریؓ نے 9 ھجری میں جلایا تھا ،، ورنہ اندھیرا ھوتا تھا،، الغرض مفتی تقی صاحب کی جامعہ دارالعلوم ھو یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی جامعہ فاروقیہ ،، جامعہ بنوری ٹاؤن ھو یا جامعہ بنوریہ ،،ساری گیٹ سے لے کر مہتمم کے دفتر تک اور حمام سے لے کر مطبخ کی مشینوں تک ، سب سود سے لَـتھڑی ھوئی ھیں !
یہ ھے وہ اضطرار جس سے کوئی محفوظ نہیں ھے !
پھر صرف حکومت اپنے اضطرار کے لئے مجرم کیوں ھے ؟
اھل محراب و منبر اپنے 3000 طلباء کے لئے مضطر ھو گئے حکومت کو 20 کروڑ کو پالنا ھے !
مسئلے کا حل ملکی یا مقامی نہیں ھے بلکہ بین الاقوامی ھے ،سود کے بوجھ تلے دبی ھوئی انسانیت ایک دن بغاوت کرے گی ،تمام ممالک ڈیفالٹ کر جائیں گے ،صرف امریکہ کے ڈیفالٹ کرنے کی دیر ھے ،یہ معاملہ صدیوں نہیں بس دہایوں کا رہ گیا ھے ،پچھلے سال اگر کانگرس ایک بل پاس نہ کرتی تو امریکہ نے ھفتے میں ڈیفالٹ کر جانا تھا ، ان کے طے کردہ سودی قرضوں کی حد ختم ھو چکی ھے وہ اپنی حد سے زیادہ قرض لے چکے ھیں اور اب ھر سال انہیں کانگرس سے بل پاس کرا کر قرض لینا ھو گا ،جس سال یہ قرض نہ لیا جا سکا امریکہ ڈیفالٹ کر جائے گا ، ڈالر ٹکے بھاؤ بکے گا ، وہ دن دنیا کی سود سے ازادی کا دن ھو گا ،امریکی ڈیفالٹ کے 48 گھنٹے کے اندر تمام ممالک کی اسٹاک ماریکیٹیں زمین پر آ گریں گی اور ان کی کرنسی مٹی بن جائے گی وہ مجبور ھونگے کہ اسلامک بینکنگ شروع کریں کیونکہ وہ حقائق پہ چلتی ھے ،افواھیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اس دن کوئی کسی پر پابندیاں لگانے کے قابل نہیں ھو گا !