انسان بمقابلہ شیطان اور توبہ کا امتحان !

اس میں کوئی شک نہیں کہ جھگڑا انسان اور شیطان کے درمیان ھے،

اللہ پاک نے ھر جگہ شیطان کو انسان کا دشمن کہا ھے اپنا دشمن کہیں نہیں کہا،، یہ اللہ تھا جس نے انسان کو ایک سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان کے وہ سارے سجدے اٹھا کر باھر پھینک دیئے جو اس نے اللہ کو کیئے تھے اورجنت اور دوزخ سے بالا ھو کر سوچیں تو یہ ھماری اخلاقی کمینگی کی انتہا ھے کہ ھم پھر بھی اللہ کو سجدہ نہ کریں ،، فرمایا،، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ھے( یآدم ان ھٰذا عدو لک و لزوجک -طہ ) (الم اقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین ؟ کیا میں نے تم دونوں کو نہیں بتایا تھا کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ھے-الاعراف )، (کیا تم اللہ کی بجائے شیطان اور اس کی ذریت کو دوست بناتے ھو حالانکہ وہ تمہارا دشمن ھے،ظالموں نے بہت برا متبادل چنا ھے -بنی اسرائیل) تم ایک دوسرے کے دشمن ھو -البقرہ )جو لوگ اسے اللہ کا دشمن سمجھتے ھیں اور خود کو ھیرو جو اللہ کی مدد کو پہنچے ھیں وہ الٹا اللہ پر احسان دھرتے ھیں کہ جناب ھم تو اللہ کے دشمن سے سینگ پھنسا بیٹھے اور اللہ ھمیں اکیلا چھوڑ کر الگ ھو گیا، گویا مرے تھے جن کے لئے وہ رھے وضو کرتے،جبکہ حقیقی صورتحال یہ ھے کہ الٹا اللہ نے ھماری وجہ سے شیطان سے دشمنی کی اور اس کے سجدے اور اطاعتیں اس وقت تک اٹھا کر پھینک دیں جب تک وہ انسان کی عظمت تسلیم نہ کرے –
شیطان کو انسان کی بڑائی یا عظمت قبول نہیں، اللہ کو تو وہ سجدہ کرنے کو تیار ھے،مگر اس کے بقول جونیئر کو چیف بنا کر اس کے ساتھ زیادتی کی گئ ھے،جواب یہ ھے کہ جونئیر صلاحیتوں میں تجھ سے بہتر ھے مجبوراً اسی کو چیف بنانا پڑا کیونکہ اصل بات سنیارٹی کی نہیں اس ڈیوٹی کی ھے جو تجھے ادا کرنی ھے ! سوال اٹھا وہ ڈیوٹی کیا ھے،،جواب ملا گر کے اٹھنا،، پرچہ آدم کو بھی دیا گیا اور ابلیس کو بھی تھما دیا گیا،، آدم گر گر کے اٹھتا ھے جبکہ شیطان ایک ھی دفعہ جو گرا ھے تو پھر گرتا ھی چلا گیا ھے، ھم سے دنیا میں گناہ اسی لیئے سر زد ھونے دیئے جاتے ھیں کہ دیکھیں کون گر کے اٹھتا ھے اور اپنی انسانیت ثابت کرتا ھے،جبکہ گر کے پڑے ھی رھنے والے شیطانوں کی صف میں چلے جاتے ھیں،یہ سارا امتحان کا گھڑاک ھی گرنے اور اٹھنے کا ھے،اگر انسان فرشتہ ھو جائے تو بساط آج ھی لپیٹ لی جائےیہی مفہوم ھے مسلم شریف کی اس آخری حدیث کا ،،لو لم تذنبوا لذھب اللہ بکم و،،،، اگر تم سے گناہ سرز زد ھونا بند ھو جائیں تو اللہ تمہیں یقیناً لے جائے اور ایسے لوگ لائے جن سے گناہ سر زد ھوں پھر وہ اٹھیں اللہ سے معافی مانگیں اور اللہ انہیں معاف فرمائے ،، اس میں زور” اٹھنے اور معافی مانگنے "پر ھے،،ورنہ خطا احتیاطاً کرنے کی ضرورت نہیں،یہ ھماری انسانیت کا لازمہ ھے،، میں آدمی ھوں کوئی فرشتہ نہیں حضور ،، میں آج اپنی ذات سے گھــبرا کے پی گیا ! مفتی تقی عثمانی صاحب اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ھیں کہ ساؤتھ افریقہ کے دورے کے دوران ھم ایک ٹرین میں سفر کر رھے تھے جو دورانِ سفر خراب ھو گئ، تمام پسینجر ٹرین سے اتر کر باھر بیٹھ گئے جن میں ھم بھی شامل تھے، وھاں بیٹھے بیٹھے میری نظر ایک بہت ھی خوبصورت پودے پر پڑی جس پر انتہائی پرکشش پھول لگا ھوا تھا،، میں بے ساختہ اس پھول کو توڑنے لپکا مگر میرے میزبان نے تقریباً چیختے ھوئے مجھے للکارا مولانا، مولانا اس کے پاس مت جایئے،، میں اس کی اس سنجیدہ وارننگ پر ٹھٹک کر رک گیا اور پوچھا بھائی کیا ھوا؟ کیا یہ کسی کی ذاتی ملکیت ھیں؟ کہنے لگے مولانا اس پھول کے ساتھ ھی اس کا ھم رنگ کانٹا ھوتا ھے جو سانپ کے زہر کا سا اثر رکھتا ھے،، ادھر وہ آپ کو چبھا اور ادھر آپ کا خون گاڑھا ھونا اور جمنا شروع کر دیتا ھے،جس سے انتہائی اذیت ھوتی ھے اور علاج میں دیر سے جان بھی چلی جاتی ھے – میں نے کہا ارے میاں یہ تو بہت خطرناک پودا ھے،حکومت کو اس کے گرد یا تو باڑ لگانی چاھئے یا پھر کوئی تحریری وارننگ اس کے ساتھ کھڑی کرنی چاھئے! وہ کہنے لگا مولانا یہاں کے لوگوں کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں، اجنبی اس کا شکار ھو جاتے ھیں، پھر وہ اٹھا اور بہت احتیاط سے اس پودے کی جڑ کو کھودا اور ایک ایک جڑ نما چیز نکال کے لایا ،کہنے لگا مولانا ایسے ھر پودے کے ساتھ ھی نیچے قدرت نے اس کا علاج بھی رکھا ،،آپ اس پانی سے بھری جڑ کو جونہی چبا کر چوستے ھیں،،اس پودے کا زھر اسی لمحے تحلیل ھو جاتا ھے،اور یوں وہ صرف عام کانٹا رہ جاتا ھے،، ابھی میں نے یہ جڑ نکال لی ھے چند گھنٹوں بعد ویسی ھی تریاق سے بھری جڑ پھر تیار ھو جائے گی ! اللہ نے جہاں گناہ کا پرکشش پودا اگایا ھے وھیں اس کے پڑوس میں توبہ کا تریاق بھی رکھا ھے، جب زھر کھانے سے نہیں شرماتے تو تریاق کھانے سے شرم کیسی ؟ جب اللہ معاف کرنے سے نہیں تھکتا تو تم توبہ کرنے سے کیوں تھک جاتے ھو،، لوگ عام طور پر کہتے ھیں کہ جی یہ بھی کوئی توبہ ھے کہ روز توبہ کر لی اور پھر گناہ کر لیا،،گویا رند کے رند رھے ھاتھ سے جنت نہ گئ والا معاملہ ھو گیا ! میں کہتا ھوں کہ یہ شیطانی سوچ ھے،وہ کسی نہ کسی طرح انسان کو توبہ سے روکنا چاھتا ھے، اگر یہ دو لفظ کہنا اتنا اسان ھوتا تو شیطان کب کا کہہ کے فارغ ھو گیا ھوتا ! یہ ھی تو اس سے ادا نہیں ھو پا رھے،یہی دو لفظ تو اس کے اور رب کے درمیان آڑ بن گئے ھیں،، بھلا وہ انسان کو انہیں ادا کرتے کیسے دیکھ سکتا ھے،، توبہ مومن کا سرپرائز ویـپن ھے،،شیطان نیکیوں سے نہیں ڈرتا ،اسے پتہ ھے میں ایک ھی گناہ ایسا کروا لوں گا کہ ساری نیکیاں ضائع ھو جائیں گی،،وہ تو توبہ سے خوفزدہ رھتا ھے کیونکہ توبہ کی وجہ سے گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ھو جاتے ھیِں ” اولئک یبدل اللہ سیئآتھم حسنات ” یہ وہ توبہ کرنے والے لوگ ھیں جن کی بدیوں کو اللہ نیکیوں مین تبدیل کر دیتا ھے ( الفرقان ) گویا یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ھے،،کبھی گناہ اسے سانپ کی طرح ڈس کر پاتال میں پہنچا دیتا ھے تو کبھی توبہ اسے پاتال سے نکال رب کے قدموں میں عرش کے سامنے لا سجدے مین ڈالتی ھے !

سورس