نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول وھی تھا جو ھر نبی اور رسول کا ھوا کرتا ھے کہ پچھلی کتاب کے احکامات کو ھی قانون سمجھنا جب تک کہ اللہ پاک وحی کے ذریعے سابقہ کتاب کے قانون کو تبدیل نہ کر دے ، اس کو قرآن نے بار بار مصدقاً لما بین یدیہ ،، کی اصطلاح سے ذکر کیا ھے یعنی تمام رسول اور نبی سابقہ کتاب کی تصدیق کرتے ھوئے آتے ھیں – اس تصدیق کا تقابل اپنی اس تصدیق سے مت کیجئے گا ،جس میں ھم تصدیق کرتے ھیں کہ تورات اللہ کی کتاب ھے مگر اس پر عمل نہیں کرتے ، ھم عمل اس لئے نہیں کرتے کہ وہ حکم اب تبدیل ھو چکا ھے ،،
وحی خفی کی دلیل میں لوگ کہا کرتے ھیں کہ اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ” وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہا ،، ھم نے نہیں ٹھہرایا تھا قبلہ اس کو جس پر آپ تھے مگر اس امتحان کے لئے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ھے ،، اب ثابت کیجئے کہ قرآن میں کہاں بیت المقدس کو قبلہ ٹھہرایا گیا ھے ؟ اور اگر آپ یہ نہیں ثابت کر سکتے تو یہ بات ثابت ھو گئ کہ بیت المقدس کو قبلہ وحی خفی کے ذریعے بنایا گیا تھا جو قرآن میں درج نہیں کی گئ تھی،،، عرض ھے کہ وہ سابقہ کتاب تورات میں ھی قبلہ مقرر کیا گیا تھا اور اسی کا حوالہ دیا جا رھا ھے ،نبئ کریم ﷺ مکے میں شروع سے ھی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے آپ بیت اللہ میں اس رخ پر کھڑے ھوتے کہ بیت اللہ بھی سامنے ھوتا اور بیت المقدس بھی ،، کیونکہ بیت اللہ میں چاروں طرف کھڑا ھوا جا سکتا تو یہ بات مکے والوں پر پوشیدہ رھی مگر ھجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مکہ یعنی بیت اللہ بالکل پشت پر چلا گیا – اب یہاں صحابہ کا امتحان تھا کہ وہ بیت اللہ کی طرف پشت کریں اور بیت المقدس کو بطور قبلہ عزت دیں اور اس کی طرف رخ کریں ،،
کسی بھی سابقہ کتاب میں نازل شدہ حکم کو ھمیشہ نئ کتاب میں درج شدہ حکم سے ھی تبدیل کیا جاتا تھا نہ کہ وحی خفی سے ، یعنی آئین کی طرح تحریری تبدیلی کی جاتی ھے اور اللہ کے قول کو اللہ کے مندرج قول سے ھی منسوخ کیا جاتا ھے – نہ کہ رسول کے قول سے ، رسول کتاب اللہ اور اس میں نازل شدہ قوانین کے اتباع کے پابند ھوتے ھیں ان میں تبدیلی کے مجاز نہیں ھوتے،
(( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (یونس- 15)
کہہ دیجئے کہ میرے لئے جائز نہیں کہ میں اس کتاب کو بدل دوں اپنی طرف سے ، میں تو اس کا مکلف بنایا گیا ھوں کہ پیروی کروں اس کی جو وحی کیا جاتا ھے میری طرف، میں اگر اس کی خلاف ورزی کروں تو مجھے ایک بڑے دن رب کے عذاب کا خوف ھے –
اسی طرح رجم کا حکم تورات اور انجیل دونوں میں جوں کا توں موجود تھا اور اب بھی ھے ، اسی کا ذکر اللہ پاک نے سورہ المائدہ میں کیا ھے کہ یہ لوگ زانی کا مقدمہ آپ کے پاس لے کر آئے ھیں حالانکہ اگر ان کو اللہ کے حکم کو ھی ماننا ھوتا تو وہ حکم خود ان کی کتاب تورات میں موجود ھے ، اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے تورات منگوائی ، اور کہا کہ اس کو پڑھو ، پڑھنے والے نے رجم کے حکم پر انگوٹھا رکھ لیا ،جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے اٹھوایا اور نیچے سے رجم کا حکم پڑھوا کر ان کو سنگسار کا فیصلہ سنا دیا ،،
وكيف يحكمونك وعندهم التوراة فيها حكم الله ثم يتولون من بعد ذلك وما أولئك بالمؤمنين ( المائدہ- 43 ) یہ آپ سے فیصلہ لینے کیونکر آ گئے ھیں جب کہ ان کے پاس تورات موجود ھے جس میں اللہ کا حکم موجود ھے ؟ در اصل یہ ایمان ھی نہیں رکھتے –
اس کے بعد آپ نے ان کو رجم کرنے کا حکم دیا ،، سب سے پہلا رجم یہی تھا جو رسول اللہ ﷺ نے یہود کو کیا ،،
ابن کثیر نے اس واقعے کو ابوداؤد کی روایت کے حوالے سے تفصیل سے بیان کیا ھے ، جابر بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی جوڑے کو لایا گیا کہ جنہوں نے بدکاری کی تھی – رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے سب سے بڑے دو عالموں کو لاؤ- وہ صوریا کے دو بیٹوں کو لائے ، آپ نے ان دونوں کو قسم دے کر پوچھا کہ ان کی کتاب تورات میں زانی کی سزا کیا ھے ؟ انہوں نے کہا کہ جب چار آدمی یہ گواھی دیں کہ انہوں نے ان کو اس طرح بدکاری کرتے پکڑا ھے جس طرح سلائی سرمہ دانی میں جاتی ھے تو ان کو رجم کر دیا جائے – واضح رھے یہی وہ الفاظ ھیں جن کے ذریعے آپ ﷺ نے ماعز سے وضاحت مانگی تھی کہ جس طرح سلائی سرمہ دانی میں جاتی ھے ، اس طرح زنا کیا ھے ؟ یہ نبئ کریم ﷺ کے الفاظ نہیں بلکہ یہود کے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے چاروں گواھوں کو طلب کیا جنہوں انہی الفاظ میں گواھی دی تب آپ نے اس جوڑے کو رجم کرا دیا – اس کے بعد آپ نے یہودی علماء سے پوچھا کہ تم ان کو رجم کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے عذر پیش کیا کہ یہ حکومت کا کام ھے اب جبکہ ھماری حکومت چلی گئ ھے تو ھم نے قتل کو ناپسند کیا – ابن کثیر لکھتے ھیں کہ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ھیں کہ آپ نے رجم تورات کے حکم کے تحت کیا –
ھمارے کہانی کاروں نے قرآن سے تو آیت رجم کو غائب کر دیا ، کسی کے نزدیک حضرت عائشہؓ کی بکری آئی اور آیت رجم کھا گئ ،، اور کسی کے نزدیک لوگ بھول گئے اور قرآن مرتب ھونے کے بعد پھر کسی نے اس میں اس کو دوبارہ ڈالنے کی جرأت نہیں کی ،، جبکہ طرفہ تماشہ یہ ھے کہ جن کتابوں کی تحریف اور تبدیلی کے ھم قائل ھیں کہ ان میں رد و بدل اور تبدیلی ( Tempering) کی گئ ھے ان میں تو آیتِ رجم آج تک موجود ھے ،اور جس کتاب کے بارے میں ھمارا ایمان ھے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ھے ، اس میں سے بکری کھا کر اس کی تلاوت منسوخ کر گئ ھے ، گویا نعوذ باللہ تحریف خود ھمارے یہاں ثابت کی جاتی ھے ،، رجم کا حکم نہ کبھی قرآن میں نازل ھوا تھا اور نہ غائب ھوا ھے ،جو حکم نازل ھوا تھا وہ آج تک سینہ تانے کھڑا ھے کہ زانی مرد ھو یا عورت اس کو سو کوڑے مارے جائیں –
الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مانۃ جدۃ (النور : 2) زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ھر ایک کو سو کوڑے مارو ،،
رسول اللہ ﷺ نے ماعز اور غامدیہ عورت کو نیا حکم آنے سے پہلے تورات میں درج حکم کے تحت ھی سزائے رجم دی ھے اور اس کا ثبوت یہ ھے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے دونوں سے یہ سوال نہیں کیا کہ وہ شادی شدہ ھیں یا غیر شادی شدہ ،، اگر غیر شادی شدہ کی سزا کوڑے ھیں اور شادی شدہ کی سزا سنگسار ھے تو رسول اللہ ﷺ جیسے فھیم جج سے ایسی کوتاھی ممکن ھی نہیں کہ آپ سزا سنانے سے پہلے ضابطے کی کارروائی میں ان سے یہ وضاحت طلب نہ کریں کہ ان کا Marital Status کیا ھے ؟ اس لئے کہ دونوں کی سزا میں زمین آسمان کا فرق ھے- چونکہ شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ھر دو صورتوں میں سزائے سنگسار ھی تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس طرف توجہ ھی نہیں فرمائی –
تورات میں رجم کا حکم کنواری کو سنگسار –
اگر یہ بات سچ ھو کہ کنواری میں اب کنوارپن کا نشان ثابت نہیں ھوا ( تو گواھوں کی ضرورت نہیں ) اب اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازے پر نکال لائیں اور اس شہر کے لوگ اس کو سنگسار کریں کہ وہ مر جائے، کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر فاحشہ پن کیا ، یوں تُو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کر – ( استثناء- 21)
اگر کوئی کنواری کسی مرد سے منسوب ھو گئ ( منگنی ھو گئ ) اور کوئی دوسرا اس کو شہر میں پا کر اس سے بدکاری کر لے تو تم دونوں کو شہر کے پھاٹک پر لا کر دونوں کو سنگسار کر دینا تا کہ وہ مر جائیں ، لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر ھوتے ھوئے بھی چلائی نہیں اور مرد کو اس لئے کہ اس نے ھمسائے کی منسوبہ کو بےحرمت کر دیا ، یوں تُو اس برائی کو اپنے اندر سے دفع کر –
( استثناء – 23 – 24)
سنگسار کی سزا انجیل میں –
یوحنا کی انجیل میں ھے –
اور فریسی اور فقیہہ ایک عورت کو پکڑ کر لائے جو زنا میں پکڑی گئ تھی اور اسے (مجمعے کے) بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا کہ : اے استاد یہ عورت عین زنا کی حالت میں پکڑی گئ ھے ،اور تورات میں موسی نے ھم کو حکم دیا ھے کہ ھم ایسی عورتوں کو سنگسار کریں پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ھے ؟ انہوں نے ایسا یسوع کو آزمانے کے لئے کہا تا کہ وہ اس کو کوئی الزام دینے کی راہ دیکھیں ،مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا ، جب وہ اس سے سوال کرتے ھی رھے تو اس نے سیدھے ھو کر ان سے کہا کہ تم میں سے جو بےگناہ ھے وھی پہلے اس کو پتھر مارے-
( یوحنا – باب 8، آیت 3 ،8))
یہ آیت کہ ” (( مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( البقرہ- 106) نہیں ھم کوئی آیت منسوخ کرتے یا بھلاتے مگر اس سے بہتر اور اس جیسی لے کر آتے ھیں ،سے مراد قرآن میں نسخ نہیں اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب آ کر اس کو منسوخ کرے گی ،بلکہ یہ یہود سے خطاب کے دوران ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جا رھا ھے کہ تورات بھی اللہ کی کتاب اور اس کا کلام ھے پھر اللہ کے کلام میں بھلا کیا خرابی ھو سکتی ھے کہ اس کو تبدیل کرنا پڑے ، اس عذر کا جواب دیا جا رھا ھے ،،
اسی اصول کے تحت تورات اور پھر انجیل کے حکم سنگسار کو صاف واضح اور دو ٹوک انداز میں 100 کوڑے سے تبدیل کر دیا گیا ھے ، کوئی شادی اور غیر شادی شدہ والی شرط ساتھ نازل نہیں کی گئ ، جب سنگسار تھا تب بھی وھاں شادی اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق نہیں تھا اور جب اس کو تبدیل کر لے کوڑوں میں تبدیل کیا تب بھی کوئی شرط نازل نہیں کی ، جب نبئ کریم ﷺ نے سنگسار کی سزا دی تو ان سے پوچھا ھی نہیں کہ وہ شادی شدہ ھیں یا غیر شادی شدہ ،، یہ سزا تورات مین درج حکم کے مطابق دی گئ جسے قرآن نے تبدیل کر دیا –