آج ھوں میں جو کچھ بھی،یہ آپ کی عنایت ھے ! اپنے محبوب ابا جی کے نام !

آج ھوں میں جو کچھ بھی،یہ آپ کی عنایت ھے ! اپنے محبوب ابا جی کے نام !

November 6, 2013 at 9:03pm

اولاد کو برباد کرنا!

انہیں پل پل زخم دینا!

ان کی شخصیت کو کچل کچل کر مسخ کرنا !

کھلا پلا کر اپنا دشمن بنانا کوئی والدین سے سیکھے

 

ان میں کبھی بھی اعتماد کو پنپنے نہ دینا،بلکہ دوسرے اگر اعتماد کا اظہار کریں تو تعجب کا اظہار کرنا اور اپنی اولاد کے

لطیفے بنا بنا کر انہیں سنانا، ان کی ھر قسم کی صلاحیتوں پر شک کا اظہار کرنا، اگر وہ اچھے نمبر لے آئیں تو حلف لے

 

کر اس بات کا یقین کرنا کہ انہوں نے نقل نہیں کی،، غلطی کسی کی بھی ھو مار اور گالیاں اپنی اولاد کو دینا،، سودا

سلف لائیں تو بار بار شک کا اظہار کرنا کہ پیسے مار تو نہیں لیئے ؟ اور دکاندار سے فون کر کے ایک ایک چیز کا ریٹ

پوچھنا،، دکان پر بھیجنا تو پیسے پورے گن کر دینا،چار آنے زیادہ نہ چلے جائیں،، سکول جائے تو بس کے کرائے کے

پورے پیسے دینا،، یہ گنجائش نہ رکھنا کہ شاید ٹیکسی پہ آنا پڑ جائے،، جو بھی کاپی یا کتاب لینا ،،بچے کی خوب

کلاس لے کر اور اگلا ھفتہ اسی ورد میں گزارنا کہ ھم تیرے اوپر کتنا خرچ کر رھے ھیں، ھمارے والدین یہ کچھ ھم کو

نہیں لے کر دیتے تھے،،بچہ کچھ کھانے کو مانگے تو اسے یاد کرانا کہ اسلامک اسٹڈی کی بک 90 درھم کی لائے

ھیں،،وہ کوئی اچھی ڈش پکانے کا بولے تو پورے سال کی فیس کا بل اس کے آگے رکھ دینا،، وہ کہیں آؤٹنگ میں جانے

کی فرمائش کرے تو اس کی مارکس شیٹ اس کے سامنے رکھ کر اسے پڑھائی پر لیکچر دینا تا کہ آئندہ وہ اس قسم کے

شوق سے توبہ کر لے،عین جس وقت وہ کارٹون دیکھنے کو ریموٹ پکڑے یا کھیل کے لئے بیٹ اٹھائے تو اس سے سوال

کرنا کہ کیا قرآن پڑھا تھا؟ وہ وضو کرے تو اس کے ھاتھ پاؤں کو بار بار ھاتھ لگا کر چیک کرنا،، گیلے ثابت ھو جائیں تو پھر

بھی کہنا کہ کمال ھے ابھی ابھی تو تم غسل خانے میں گئے تھے،ھمارے زمانے مین اتنا جلدی وضو تو نہیں ھوتا

تھا،،اس کے برعکس جب غسل کے لئے جائے تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازہ بجا کر پوچھتے رھنا کہ کیا کر رھے ھو؟

نہانے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟ اور جب نماز پڑھ کے آئے تو یقین نہ کرنا اور اس سے پوچھنا مولوی صاحب نے

کونسی سورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی،،پھر اس کے دوست کو فون کر کے تصدیق کرنا یا پوچھنا کہ تیرے دائیں طرف

کون تھا اور بائین طرف کون تھا،،پھر اس کے باپ سے تصدیق کرنا،، پیرینٹس ٹیچرز میٹنگ پہ جانا ھی اس نیت سے کہ

بچے کی برائیاں کر کے اسے ٹیچر کی نگاھوں سے بھی گرانا ھے ، مولوی صاحب کو ختم شریف پہ بلانا تو سارا وقت

اولاد کی برائیاں بیان کرتے رھنا اور کہنا کہ یہ نماز پڑھنے جائے تو اس پر خصوصی نظر رکھا کریں یا کوئی تعویز دیں جو

اس کو انسان کا بچہ بنا دے یوں بچے کو امام مسجد کی نظروں سے بھی گرا دینا،،اس کے سامنے دوسروں کے بچوں

کی ھر وقت تعریف کرنا اور ان کی ماؤں کی بیان کردہ خوبیاں اپنے بچوں کے سامنے بیان کر کے انہیں لعن طعن کرنا

حالانکہ وہ بچے اچھی طرح جانتے ھیں کہ ممدوح بچے کیا گُل کھلاتے پھرتے ھیں،، شوھر کو ھر وقت ٹوکتے رھنا کہ تم

بچے پر سختی نہیں کرتے ھو، اسے تھپکی دے کر اولاد پر پھینکنا کہ مرد بنو مرد،، باپ بن کے دکھاؤ،،بچہ فیس بک پر

بیٹھے تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد سلام پھیرنے کے انداز مین نظر ڈال لینا، کہیں شادی کا کہہ دے تو تمسخر اڑانا اور دنبی

 

میں دانا پڑنے کی بشارت سنانا ،، سہیلیوں کو فون کر کے بتانا کہ اس کا بیٹا” وہٹی "مانگتا ھے- جاب کی تلاش مین

 

دھکے کھا کر آئے تو اسے دیکھتے ھی کہنا” کھا آئے او” مجھے پہلے ھی پتہ تھا،، یا کہنا دوستوں کے ساتھ ھوٹلوں

میں بیٹھ کر گپیں لگا کر آ جاتے ھو ،تم کام ڈھونڈتے کب ھو،، کڑیاں پچھے پھر کے آ جاتے ھو،، شادی مین کوشش کرنا

 

کہ لڑکا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی نہ کرنے پائے بلکہ کسی ایسے رشتہ دار کی بیٹی سے شادی کرے جس نے

زندگی مین آپ پر احسان کیا تھا، تاکہ اسے بَلی کا بکرا بنایا جا سکے،، شادی کے بعد پہلی صبح کو دلہن کے کمرے

 

کے بعد اپنی برادری کی عورتوں کو لے کر گِــــــــدھــــــــــــوں کی طرح جھرمٹ لگا کر بیٹھ جانا تا کہ لڑکی کی عصمت کا

حساب کتاب ان خرانٹ عورتوں پر مشتمل جیـــــــــــــــــــــــــوری میں پیش کر کے نشانِ حیدر لیا جائے،، دو چار ماہ اولاد

کا سلسلہ نہ چلے تو ،،بار بار بچے کو اکیلے میں امان جی کا مشکوک انداز میں پوچھنا” منڈیا تو ٹھیک تو ھے ناں ؟

،

اور پھر تعویز دھاگے اور پیر بابے کے چکر،، پھر ھم بریکنگ نیوز سنتے ھیں،، پنڈی چھاونی میں حاضر سروس کیپٹن بیٹے

 

نے اپنے ریٹائرڈ برگیڈیئر والد ،والدہ اور تین بہنوں سمیت پورے خاندان کو رشتے کے تنازعے میں قتل کر دیا،، کل ماں اور

باپ کو قتل کرنے والا بیٹا اورنگی ٹاؤن مین گرفتار ! لوگ والدین کو کیوں مارتے ھیں ؟ اس لئے کہ وہ خود چلتی پھرتی

لاش ھوتے ھیں !! فــاعتبروا یا اولو الابصار،،اھل بصیرت عبرت پکڑو

!

یہ وہ ساری شکایات ھیں جو والدین یا بچوں کے ذریعے مجھ تک پہنچیں اور میں نے دونوں فریقوں کو یہ سمجھایا کہ اولاد کو اس طرح رسوا نہیں کرتے اور دوسری طرف اولاد کی سمجھایا کہ اگرچہ ان کے طریقہ کار میں خامی ھو مگر ان سے بڑھ کر تمہارا ھمدرد کوئی ھے نہ ملے گا، یہ تمہارے وجود کا حصہ ھیں اور تم ان کی ایکسٹینشن ھو،، وہ تمہیں اپنا آپ سمجھ کر اس طرح کا سلوک کرتے ھیں،،وہ جس طرح خود ھونا چاھتے ھیں تمہیں ویسا بنانے کی کوشش کر رھے ھیں یہ الگ بات ھے کہ وہ عمر کے فرق کو بھول گئے ھیں، اولاد نے وقتی طور پہ اگرچہ میری نصیحت کا برا بھی منایا مگر پھر وقت آیا کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ میری بات ھی ٹھیک تھی،جبکہ ان کو بھڑکانے والے انہیں دھوکا دے رھے تھے-

خود میری تربیت الحمد للہ والد صاحب نے اس طرح کی کہ مجھے محسوس ھی نہیں ھونے دیا کہ مجھے کوئی حکم دیا جا رھا ھے،زندگی بھر انہوں نے جب کوئی کام کروانا چاھا مجھ سے مشورے کے انداز میں پوچھا اور مجھے پتہ چل گیا کہ وہ کیا چاھتے ھیں،دین میں جبر نام کی کوئی چیز میں نے ان کی طرف سے محسوس نہیں کی،انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کو اور مجھ کو حکم دینے والی ایک ھی ھستی ھے اور ھم دونوں کو اس کے حکم پر برابر چلنا ھے اور اس چلنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ھے،اگر کہیں کوئی کوتاھی ھوئی ھے تو انہوں نے مجھ سے پہلے آگے بڑھ کر اسے عمر کا تقاضہ سمجھا اور بغیر معافی مانگے معاف کیا ھے اور بغیر نصیحت کیئے اپنے حسن سلوک سے نصیحت کر دی ھے،ان کے چہرے کی ایک ایک سلوٹ سے میں آگاہ تھا،ان کی ناراضی کو ان کے چہرے کی سلوٹ میں پڑ لیتا تھا اور درستگی پر اسی سلوٹ میں خوشی کا سورج طلوع ھوتے بھی دیکھتا تھا،مجھے اچھی طرح یاد ھے جب انہیں پتہ چلا کہ ھم بھائی فرضوں اور سنتوں کے بعد مسجد سے نکل جاتے ھیں اور تراویح نہیں پڑھتے بلکہ پاس کے ھوٹل کے باھر لگے ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتے رھتے ھیں اور جب  وتر کی باری آتی ھے تو فوراً مسجد پہنچ کر شریک ھو جاتے ھیں تو بجائے ڈانٹنے کے جب انہوں نے قہقہ مار کر والدہ کو ھم بھائیوں کا یہ کارنامہ بتایا اور فرمایا کہ چھوٹے بھوت بڑے بھوتوں کو ٹھگتے رھے ھیں،،پھر فرمایا دیکھو مسجد سے نکل کر دوبارہ مسجد میں آنا بڑے کمال کی بات ھوتی ھے،اس کھیل میں بھی یہ کان اور دھیان اس بات پر رکھتے تھے کہ کب تراویح ختم ھوئی ھے اور وتر کھڑے ھوئے ھیں،، بس ان کا یہ فرمانا ھی ھماری اصلاح تھی، پھر زندگی میں کبھی ھم سے ایسی خطا نہیں ھوئی، آج جو اعتماد آپ کو مجھ میں نظر آتا ھے یہ اللہ کا فضل اور میرے والد کا مجھ پر احسان ھے کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کی حد کر دی ،ان کے نزدیک حنیف سب علماء سے زیادہ جانتا تھا اور حنیف کا کہا اخری ھوتا تھا، اسی اعتماد پر میں نے اپنی اولاد کی تربیت کی ھے،، میں نے کل جب وہ یونیورسٹی چلے جائیں گے تو بھی ان کے کہے پر اعتبار کرنا تھا،اس اعتبار کی ابتدا میں نے گھر سے کر دی تھی، یہ اعتبار کی مار بھی بڑی کارآمد ھوتی ھے،میں دسویں کلاس میں تھا،ظہر کی نماز کے بعد میں ھیڈ ماسٹر صاحب کے پاس گیا چھٹی لینے کے لئے جو صحن میں ھمارے اردو کے استاد ماسٹر نواز صاحب آف آدڑہ کے ساتھ ٹہل رھے تھے،میں نے کہا کہ  سر مجھے بخار ھے گھر جانا ھے،ماسٹر نواز صاحب نے ھیڈ ماسٹر سے کہا کہ یہ لڑکا ماشاء اللہ بہت لائق اور نمازی پرھیز گار ھے،بہانہ نہیں کرتا،ان کی اس بات پر ھیڈ ماسٹر صاحب نے چھٹی دے دی،مگر اس چھٹی کی خوشی ختم ھو کر رہ گئی ،ایک آدمی مجھے کتنا نیک سمجھتا ھے اور میں نے بہانہ کر کے اس کے اعتماد کو دھوکا دیا ھے،، اس کے بعد مین نے کبھی یہ حرکت نہیں کی اور زندگی بھر ان کے اعتماد و اعتبارکو یاد رکھا،بعد مین میں نے انہیں یہ بات بتائی جب میں ابوظہبی سے واپس چھٹی گیا تو انہوں نے ھنس کر کہا کہ یہ اعتراف بھی آپ کی نیک شرست کی نشانی ھے، آپ اولاد پر اعتماد کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ اس اعتماد کو ٹھیس نہ لگنے دیں،، آپ ان کی تعریف کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ آپ تعریف کر کے شرمندہ نہ ھوں،،آپ ان کے پاس نہیں ھوتے مگر آپ کا اعتماد ان کے ساتھ ھوتا ھے ،اسی اعتماد کی رشتے میں آپ بندھے ھوتے ھیں،، شک ھمیشہ تباھی مچاتا ھے ،جس کے دل میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی اور جس کے بارے میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی ،اس سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ھوتا، میں نے بالکل اسی اعتماد پر اولاد کو پالا ھے، انہیں اجازت ھے کہ وہ جس موضوع پر چاھئیں مجھ سے ڈسکس کریں،میرا بیٹا قاسم جو حافظِ قران بھی ھے ،عربی مادری زبان کی طرح بولتا ،لکھتا اور پڑھتا ھے، اس نے بہت سارے معاملات میں میری رائے کو تبدیل کیا ھے،  میں اگر پھر بھی پیدا ھوں تو اسی حیثیت مین پیدا ھونا چاھوں گا ،انہی والدین کے گھر ،اسی اولاد کے والد کی حیثیت سے،، یہ میرےاطمینان کی حد ھے،،