خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھئے
سلیم نے جب سے ھوش سنبھالا تھا، سوائے اپنے نابینا دادا کے کسی کو نہیں دیکھا تھا،، اسے دادا نے ھی بتایا تھا کہ ماں اسے پیدا کرنے کے جوکھم میں ھی زندگی کی بازی ھار گئی تھی ، اور پھر جلد ھی باپ بھی ایک حادثے میں اللہ کو پیارا ھو گیا، ایک دادا تھا جو آنکھوں کی کسی بیماری میں مبتلا ھو کر نابینا ھو چکا تھا،، یتیم پوتے کا بوجھ پڑا تو دادا پوتے کا سر پکڑ کر فٹ پاتھ پر آ کھڑا ھوا،، اور بھیک مانگ کر اپنا اور پوتے کا پیٹ پالنا شروع کر دیا، صبح دادا اسے اٹھاتا،، وہ چائے بناتا جسے دادا اور پوتا دونوں پی کر اپنی ڈیوٹی پر نکل کھڑے ھوتے،، سلیم نے اپنا سر ھمیشہ دادا کے قبضہ دست میں پایا،، عید ھو یا شب برأت کوئی چھٹی نہیں،، اب وہ دادا کا ھدایت کار بھی بن گیا تھا،وہ دادا کو بتاتا کہ آنے والا پینٹ شرٹ میں ھے،، اچھے کپڑوں والا امیر لگتا ھے،، بیوی کے ساتھ ھے یا اکیلا ھے،، صرف میاں بیوی ھیں یا ساتھ بچے بھی ھیں،، دادا ھمیشہ موسم کی پیش گوئی کے مطابق صدا دیتا،، سلیم غریب تھا مگر ایک بچہ بھی تھا،، بچہ تو صرف بچہ ھوتا ھے، نہ امیر نہ غریب،، اس کا بھی دل کرتا کہ کبھی بچوں کے ساتھ بے فکری سے کھیلے کودے،، عید والے دن اچھے کپڑے پہنے ، شب برات کی رات پٹاخے کی ھر آواز کے ساتھ اس کے اپنے اندر کوئی چیز ٹھاہ کر کے ٹوٹ جاتی اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا،، دادا سے دبے لفظوں پٹاخے کی فرمائش کرتا تو دادا ھمیشہ ایک رٹا رٹایا جملہ بول دیتا” لوگ کہیں گے بھکاری ھو کر پٹاخے چلاتا پھرتا ھے،،اس طرح بھیک کا رستہ کھوٹا ھوتا ھے،،جس طرح مولوی کے بیٹے کو ھمیشہ اپنے ابا کی عزت کا واسطہ دے کر بچپن سے محروم کر دیا جاتا ھے،،تو قاری صاحب کا بیٹا ھے ،لوگ کیا کہیں گے؟ تو ممتاز مفتی کا بیٹا ھے لوگ کیا کہیں گے؟ عید کے دن اس نے دادا سے نئے کپڑوں کی فرمائش کر دی تو گویا زلزلہ آ گیا، دادا نے اسے دھنک کر رکھ دیا،، نواب صاحب کا بیٹا نئے کپڑے پہن کے بھیک مانگے گا تو کیا تیرا باپ قبر سے آ کے بھیک دے گا ؟ صبح بچے کرکٹ کھیل رھے تھے اور سلیم کا جی بھی کرکٹ کھیلنے کو چاہ رھا تھا،مگر سر تھا کہ دادا کی گرفت میں تھا،، جو اسے فٹ پاتھ پر ایک کھمبے کی چھاؤں میں لئے کھڑا تھا،، اپنی طرف آنے والی گیند کو اس نےجو ایک دو دفعہ پاؤں کی ٹھوکر سے واپس کھلاڑی کی طرف پھینکا تو شوق بھڑک اٹھا،، 2 بجے جب دادا نے کھانا کھانے کا وقفہ کیا تو سلیم نے کرکٹ دیکھنے کی فرمائش کر دی،، اور وعدہ کیا کہ وہ چار بجے ڈیوٹی پر حاضر ھو جائے گا،،مگر دادا کو ھمیشہ اس بات کی فکر رھتی تھی کہ ،بھکاری کا امیج خراب نہ ھو جائے،،اس نے اپنی لاٹھی جو اندازے سے گھمائی تو بے دھیانے سلیم کی کنپٹی پر جا لگی،، سلیم کا دماغ لٹو کی طرح گھوما اور وہ گر گیا،، اپنی 10 سالہ زندگی میں سلیم کے دل سے پہلی بار دادا کے لئے بد دعا نکلی کہ اللہ دادا سے اس کی جان چھڑا دے،، پتہ نہیں سلیم نے کس دل سے دعا مانگی تھی یا وہ وقت ھی قبولیت کا تھا کہ دادا کو کچھ اس طرح سے بخار ھوا کہ صبح ھوتے ھوتے جان دے دی،، سلیم جو خود ساری رات روتا رھا تھا، صبح دیر سے جاگا،اسے تعجب یہ تھا کہ اتنی دیر کیسے ھو گئی جبکہ اس کا دادا ھمیشہ صبح صبح اسے اٹھا کر تیار کر دیتا تھا، تاکہ ڈیوٹی پر جانے والوں سے کچھ نہ کچھ بٹور لیا جائے،، سلیم نے دل نہ چاھتے ھوئے بھی دادا کو آواز دی پھر پاس جا کر ھلایا تو دادا نے کوئی حرکت نہ کی،،سلیم جلدی سے کھوکھے والے کو بلا کر لایا جس نے دیکھتے ھی کہہ دیا کہ بڑے میاں چل بسے ھیں،، یہ سلیم کے لئے 14 اگست 1947 کا دن تھا،،یومِ آزادی،، اس کا دل بلیوں اچھل رھا تھا مگر اس نے مصنوعی غم کا غلاف اپنے چہرے پر چڑھائے رکھا،پھر جب لوگوں نے اس کے دادا کو دفن کر دیا اور اس کو لاوارث جان کر لوگوں نے کافی مدد بھی کر دی تو سلیم نے سکھ کا سانس لیا اور اس رات سکون کی نیند سویا، اگلی صبح وہ خوشی خوشی گھر سے نکلا، سکول کے گراؤنڈ میں کھیلتے بچوں کے ساتھ فیلڈنگ کرتا رھا،، ادھر ادھر گھوم پھر کے کھاتا پیتا بھی رھا،،مگر بارہ بجے کے لگ بھگ اس کا جی کھیل کود سے بھر گیا،اور اسے اپنے اندر کسی کمی کا احساس ستانے لگا،، اسے بار بار لگ رھا تھا کہ اس کے ساتھ آج کچھ غلط ھو گیا ھے،،مگر کہاں ؟ یہ اسے اس وقت سمجھ لگی جب اس کا سر درد سے پھٹنے لگا،، سالوں سے کسی کی گرفت میں رھنے والا سر آزادی کے بوجھ کو سنبھال نہیں پا رھا تھا ،، وہ کسی گرفت کا تقاضا کر رھا تھا،، دو بجے چھٹی کر کے آنے والوں کا رش شروع ھوا تو سلیم اپنی مخصوص جگہ پر جا کھڑا ھوا،مگر آج اسے پیسے کی بھیک نہیں چاھئے تھی ،،پیسہ اس کے پاس گزارے کے قابل ھو گیا تھا،، آج وہ کسی اور چیز کو ترس رھا تھا،،ایک پینٹ شرٹ مین ملبوس جوان کو دیکھ کر سلیم بلکتا ھوا اس کی طرف لپکا،بابو جی ، بابو جی ، جوان پلٹا اور سلیم کو روتا بلکتا دیکھ کر پہلے تو ٹھٹکا اور پھر اس کا ھاتھ جیب کی طرف بڑھا،، مگر سلیم چیخ پڑا ، بابو جی مجھے بھیک نہیں چاھئے ” اللہ کے واسطے تھوڑی دیر میرے سر کو پکڑ کر کھڑے ھو جایئے،، خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھئے ” انسان والدین کی پابندیوں اور ھر وقت کی ناصحانہ گفتگو سے تنگ ھوتا ھے،سوچتا ھے کوئی دن ھو گا جب اسے ڈانٹنے والا کوئی نہ ھو گا،،پھر جب ڈانٹنے والے چلے جاتے ھیں تو اس کے اندر کا سلیم روتا پھرتا ھے،، شوھر ھر وقت کی چخ چخ سے تنگ ھوتا ھے،،یہ اخبار نیچے سے اٹھائیں،، کمبل تہہ کیا کریں،، یہ پلیٹ اٹھا کر ادھر رکھ دیں،، اور سوچتا ھے کوئی دن ایسا بھی ھو گا جس دن
میں جتنا گند چاھوں گا ڈالوں گا ،کوئی ٹوکنے والا نہیں ھو گا ،پھر گھر والی کے جانے کے بعد چند دن خوب گند ڈالتا ھے،، برتنوں سے سینک بھر دیتا ھے،، دو دو دن کمبل تہہ نہیں کرتا،، اخبار جہاں چاھے پھینک دے،،مگر پھر اس کے اندر کا سلیم کسی حکم دینے والی، کسی ڈاننٹنے والی کے لیئے سسکنا شروع کر دیتا ھے،، پھر فون پر ھی بتانا شروع کر دیتا ھے کہ وہ اب کمبل خود ھی وقت پر تہہ کر دیتا ھے،، اور برتن تو جُڑنے ھی نپیں دیتا، فوراً دھو دیتا ھے،، بس اب تم خدا را میرے سر پر ھاتھ رکھنے آ جاؤ ! کچھ قومیں بھی سلیم ھوتی ھیں،، چار دن آقا ناراض ھو جائے،، تو آزادی کا احساس ان کے سر میں درد پیدا کر دیتا ھے،وہ خود درخواست کرتی ھیں کہ
” خدا را ھمارے سر پر ھاتھ رکھیں ”