مسلم ایشیا سوسال سے بھی زائد عرصہ ہوا کہ گھمبیر مسائل کا شکار ہے جس میں توہین رسالت سمیت سیاسی ، تہذیبی، معاشرتی، معاشی ، صنعتی گویاہرقسم کے مسائل شامل ہیں، ہمارے قائدین نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ ہمارے اوپر یورپی اقوام کا سیاسی غلبہ ہے اگریہ ختم ہوجائے تو ہمارے سب مسائل حل ہوجائیں گے چنانچہ زوردار تحریکیں چلائی گئیں اور یورپی اقوام ایشیا کا اقتدار چھوڑ کر واپس چلی گئیں لیکن مسلمانوں کے مسائل پھر بھی ختم نہ ہوئے، کیوں؟ اس لئیے کہ ہمارے اوپر اقوام مغرب کا غلبہ صرف سیاسی نہیں بلکہ جدید تہذیب کا طاقتور صنعتی غلبہ بھی تھا، مسلم ایشیا ہر اقوام مغرب کا سیاسی غلبہ ختم ہونے کے باوجود ان کی صنعتی تہذیب فاتحانہ حیثیت کے ساتھ بدستور ہم پر غالب رہی بس اتنا فرق ہوا کہ پہلے مغرب ہمارے اوپر بلا واسطہ براہ راست غالب تھا اور اب بالواسطہ ہم پہ غالب ہے، کچھ مسلم رہنماؤں نے یہ حل پیش کیا کہ صنعتی طاقت حاصل کئیے بغیر ہماری قسمت تبدیل نہ ہوگی ، چنانچہ ہم نے اس میدان میں بھی قدم رکھ دیا یہاں تک کہ جو ملک کبھی کپڑے سینے والی ایک سوئی تک نہیں بناتا تھا اُس نے ایٹم بم بنالیا، لیکن مسائل پھر بھی وہی رہے بلکہ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دواکی، وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب تک ہم نے صنعتی ترقی کی طرف بڑھنا شروع کیا تب تک یورپ سپرانڈسٹریل دور میں داخل ہوچکاتھا اور ہم بدستور پیچھے رہے اور ہمارے مسائل جوں کے توں رہے- اس قسم کی صورتحال ہمیں پہلی مرتبہ پیش نہیں آئی، پہلے بھی ہمارے ساتھ ایسا ہوتا رہا لیکن اُس وقت ہمارے پاس ایک نسخہ تھا جسے استعمال کرکے ہم مخالفین کے پیدا کردہ مسائل سے نکلتے رہے اور امت مستحکم و طاقتور ہوتی رہی، اور وہ نسخہ تھا اسلام کی دعوتی طاقت ، جی ہاں دعوت اسلامی کے ذریعہ سے وہ بڑے بڑے بُرج ڈھا دئیے گئے جو اسلحہ کی مادی طاقت اور فوجی طاقت و سیاسی غلبہ کے ذریعہ بھی نہیں ڈھائے جاسکے تھے، آپ کو یاد ہوگا جب تیرھویں صدی عیسوی کے وسط میں تاتاریوں کا سیلاب امڈ آیا تھا جیسے آج یورپ اور امریکہ کا سیلاب ہے اور ان وحشی تاتاریوں کی طاقت ناقابل تسخیر بنی ہوئی تھی جس طرح آج یورپ وامریکہ ناقابل تسخیر بنے ہوئے ہیں، مگر تاتاریوں کی بظاہر ناقابل تسخیر طاقت کو ہم نے ہزیمت و شکست اٹھانے کے باوجود مسخر کرلیا تھا اور ہم پھر بھی فاتح کہلائے، ہم نے وقت کی اُس بڑھتی ہوئی ناقابل تسخیر طاقت کو صرف اسلام کے دعوتی عمل کے ذریعہ سے شکست دی تھی اور جو کل تک اسلام کو مٹانے کے درپے تھے آج وہی اسلام کے محافظ بن کر آگے بڑھ رہے تھے، انگریزوں کو یہ بات سمجھ آگئی لیکن ہمیں نہیں آئی، ایک انگریز کہتا ہے:
The religion of the Muslims had conquered where their arms had failed.
یعنی مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی جہاں ان کے ہتھیار نا کام ہوچکے تھے۔
ہمارے تمام مسائل کا حل بشمول توہین رسالت کے آج بھی اسی میں ہے کہ ہمیں اسلام کی اسی دعوتی طاقت کو لیکر اٹھنا ہوگا اگر دعوت اسلامی کے اس کام کو صحیح طریقہ سے انجام دیا جاسکے تو یقیناً حالات بدل جایئں گے، تاتاریوں کی طرح خود یورپ اور امریکہ اسلام کے سپاہی بن کر اٹھیں گے اور پھر وہی ہوگا جس کی قرآن نے خبر دی ہے ومن أحسن قولاً ممن دعا الى الله وعمل صَالِحًا وقال اننى من المسلمين-ولاتستوى الحسنة ولا السيئة ادفع بالتى هي أحسن فإذا الذي بينك وبينه عداوة كأنه ولي حميم – یعنی جو لوگ بظاہر ہمارے دشمن نظر آتے ہیں وہی ہمارے گہرے دوست اور ساتھی بن جائیں گے۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ سارا یورپ اور امریکہ اسلام کی آغوش میں آجائے ؟ تو یہ کام بم دھماکوں اور خودکُش حملوں کے ذریعہ یاان سے اظہار نفرت اور گالیوں کے ذریعہ یا مخالفانہ ریلیوں اور جلوسوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اسلام کی صحیح دعوتی طاقت کے ذریعہ ہوگا، پھر نہ کوئی عافیہ صدیقی قید ہوگی نہ کوئی کارٹون بنے گا اور نہ توہین رسالت ہوگی اور نہ ہی مسلمان مغلوب ہوگا کہ الاسلام یعلو ولایعلی –
محمد فاروق علوی برمنگھم
مذہبی بے حرمتی کا قانون
ہمارے یہاں برطانیہ میں قدیم زمانے سے ایک قانون موجود ہے جو مذہبی بے حرمتی سے تعلق رکھتا ہے، یہ قانون سترہویں صدی میں بنایاگیاتھا، عیسائیت یہاں کا سرکاری مذہب ہے، یہ قانون بنانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ قانون ساز یہ سمجھتے تھے کہ مذہب ہر حملہ براہ راست ریاست پر حملہ ہے-
An attack on religion is necessarily an attack on the state.
مسلمان برطانیہ میں یہ مہم وقتا فوقتا چلاتے رہتے ہیں کہ اس قانون کو وسعت دیکر اسلام کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ اسلام کی توہین کرنے والے پربھی اس قانون کا اطلاق ہوسکے- یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کی توہین کے متعلق قوانین خود مسلمان ملکوں کے اندر بھی موجود ہیں، تو کیا مسلمان کسی غیرمسلم کو اپنے مسلم ملک میں یہ قانونی حق دینے کے لئیے تیار ہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی یا کسی بھی غیر مسل کے مذہب کی توہین کرے تو اس مسلمان پر مقدمہ قائم کیا جائے اور اسے قانون کے مطابق سزادی جائے؟ اگر مسلمان اپنے ممالک میں اس کے لئیے تیارہوں اور برطانویوں کواس کا یقین حکومتی اور سیاسی سطح پر دلا دیا جائے تو پھر برطانیہ میں اس طرح کی قانون سازی کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے اور اگر مسلمان ممالک میں آپ کسی غیر مسلم کو یہ حق نہیں دینا چاہتے تو برطانیہ میں ایسے قانون کا مطالبہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، وہ زمانہ چلاگیا جب ہم کسی کے خط کا جواب بھی تلوار ہاتھ میں لئیے اس کے ملک کو فتح کرتے ہوئے اُس کے دارالحکومت میں اپنی تلوار گاڑکر دیا کرتے تھے۔
ہماری بے وقوفیوں اور سطحی و آندھی قسم کی جذباتیت نے مغرب میں اسلام کے خلاف بے حرمتی کا تحفظ تو نہیں کیا البتہ اسلام کی بے حرمتی کے مزید اسباب مخالفین اسلام کوہم نے ضرور مہیا کردیے ہیں، برطانیہ کے کچھ مسلم رہنماؤں نے ماضی میں حکومت برطانیہ کو ایک خط لکھا تھاکہ حکومت مذہبی بے حرمتی کے اس قانون کو وسیع کرکے اسلام کو بھی اس میں شامل کیا جائیے، ظاہر ہے یہ ایک سطحی اور مضحکہ خیز مطالبہ تھا کیونکہ برطانیہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے اس لحاظ سے یہ حق اسلام کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کو بھی حاصل ہے، عیسائیت کا معاملہ اس لئیے الگ ہے کہ وہ یہاں کا لوکل اور سرکاری مذہب ہے جیسے عرب اور پاکستان کا سرکاری مذہب۔ اسلام ہے اور لوکل مذہب بھی اسلام ہے۔
میں یہاں آپ کو اس خط کے جواب سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو اُس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹ مسٹر جان پیٹن نے ان مسلمان لیڈروں کو لکھا تھا، اس میں وزیر داخلہ نے لکھا تھا کہ: قانون کی مشین مذہب اور انفرادی عقیدہ کے معاملات سے نمٹنے کے لئیے موزوں و مناسب نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ خود عیسائی مذہب اس قانون پراب اعتماد نہیں کرتا، عیسائی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مذہب کی اپنی طاقت اس قسم کے حملوں کے مقابلہ میں بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے۔
In a letter to prominent British Muslim leaders, Mr Patten said ; Legal mechanisms were inappropriate for dealing with matters of faith and individual beliefs. Indeed, the Christian faith no longer relies on it, preferring to recognise that the strength of their own belief is the best armour.
یہ تھے برطانوی عیسائی ہوم منسٹر کے الفاظ ، کیا یہ مسلمانوں پر گہرا طنز نہیں ہے؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمارا ( عیسائی مذہب ) اتنا طاقت ور ہے کہ بے حرمتی کے خلاف قانون کے ہوتے ہوئے بھی ہم اس کے استعمال کی ضرورت نہیں سمجھتے کیونکہ ہمارا مذہب اتنا طاقتور ہے کہ وہ خود اپنا دفاع کر سکتا ہے، دوسری طرف تمہارا ( مسلمانوں کا ) حال یہ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ تمہارے مذہب کی عزت وحرمت اسی وقت محفوظ رہ سکتی ہے جبکہ اس کی پُشت پر قانون کا ڈنڈا ہو اور قانون اس کی چوکیداری کررہاہو-
میرے خیال میں ایسے مذہب کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جسے اپنی زندگی اور ناموس کے لئیے قانون کے سہارے کی ضرورت ہو۔ جو اسلام بنوامیہ کے دور سے بننا شروع ہوا اور آج تک اس میں ترمیم واضافہ اور کمی بیشی ہوتی آرہی ہے، جس اسلام میں نماز کی تکبیر اولی سے لیکر سلام کہنے تک کسی ایک بات پر بھی اتفاق نہیں اور ان ہی باتوں کو اصل اسلام سمجھ کر آئے دن مناظرہ بازی اور سرپھٹول ہوتی رہتی ہے یقیناً ایسے اسلام کو اپنی بقا اور حرمت کے تحفظ کے لیے قانون کے ڈنڈے کے سہارے کی ضرورت ہے لیکن جو اسلام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش فرمایا تھا جو کتاب وسنت کی شکل میں آج بھی بعینہ موجود ہے اسے کسی قانونی سہارے کی ضرورت نہیں، یہ رہنے کے لئیے آیا ہے، غلبہ کے لیے آیا ہے اور قیامت تک اپنی دلیل و استدلال، اپنے اخلاق و کردار اور اپنی دعوت و تبلیغ کے بل بوتے پر غالب ہے اور ہمیشہ غالب رہے گا، جو لوگ سمجھتے ہیں کہ غلبہ سے مراد ایک اسلامی حکومت کا قائم ہونا ہے تو ہمارے خیال میں وہ لیظھرہ علی الدین کلہ کو سمجھے ہی نہیں ہیں-
دین اسلام کو مغرب ہی نہیں پوری دنیا میں حکومت اور قانون کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ حکمت نبوی کے تحت صحیح دعوت و تبلیغ کی ضرورت ہے کاش کہ ہم اپنی اس ضرورت کو جان سکیں۔
محمد ایف علوی برمنگھم۔