میں 1978 سے جماعت کے ساتھ بمعہ فیملی منسلک ھوں ، والد صاحب اور بھائیوں کے ساتھ ھی سہ روزہ لگتا تھا ،،،،،، پہلے پہلے تبلیغی جماعت انسان میں بہت تبدیلیاں لاتی ھے ،، یہ تعلیمِ بالغاں کا سستا اور بابرکت پروگرام ھے ،، یہ تبلیغی نہیں تعلیمی جماعت ھے ،، ایک خاص عمر کے بعد انسان کسی سے پوچھتے ھوئے شرماتا ھے ،، مگر جب وہ دیکھتا ھے کہ جماعت میں اس سے بھی بڑی عمر کے لوگوں کو فاتحہ تک نہیں آتی تو وہ شیر بن جاتا ھے ،، جماعت میں ھر سہ روزے میں امیر تبدیل ھو جاتا ھے اور کئ بار غریب کو بھی امیر بننا پڑتا ھے ،، یہ ماھرین نفسیات پر مشتمل ایک گروپ کے تابع ھے جو انسانی نفسیات سے بخوبی واقف ھیں ،، انسان کی عزت کرنا جماعت میں آ کر سیکھا جاتا ھے ، ایک بہت بڑا افسر بھی برتن دھونے میں فخر محسوس کرتا ھے ، کسی پر طنز نہیں ھوتا ،، ٹوٹا پھوٹا بیان کرنے والے کے بیان پہ اس قدر سبحان اللہ سبحان اللہ کرتے ھیں گویا طارق جمیل صاحب کا خطاب ھو رھا ھے ،، ھمت بندھاتے ھیں ، ایمان بناتے ھیں ،امید دلاتے ھیں اور دنوں میں تبدیلی لاتے ھیں ،، جس طرح ھر دوسرا صحافی اور سیاستدان جماعتِ اسلامی سے ھو کر آیا ھوتا ھے ،، اسی طرح میرے سمیت تبلیغی جماعت پر اعتراض کرنے والوں میں دین کا پہلا بیج تبلیغی جماعت نے ھی لگایا تھا ،مگر انسان کی نفسیات ھے کہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اگرچہ وہ آج یورپ کی کسی یونیورسٹی میں لیکچرار ھے ،مگر اس کے پیچھے کوئی ٹوٹے پھوٹے جوتے والا پینڈو ماسٹر غلام حسین یا غلام ربانی ھے ،،، تبلیغی جماعت میں ھمارے معاشرے کے لوگ ھی ھیں ،، یاد رکھیں شکر میں Smell ھو تو پھر وہ جس چیز میں بھی ڈالی جائے گی اس میں بُو دے گی ،سویوں میں بھی اور چائے میں بھی ، اسی طرح ھم سیاسی جماعت میں جائیں یا تبلیغی جماعت سمیت کسی بھی دینی جماعت میں ،، ھماری معاشرتی Smell ضرور آتی ھے ،مگر ھمیں اسی کے ساتھ گزارہ کرنا ھے ،، آج کل کے پرتشدد دور میں تبلیغی جماعت بہترین نعم البدل ھے ،، اسے ھر لحاظ سے سپورٹ کرنا چاھئے ، یہی ایک طریقہ بچا ھے لوگوں کو دین تک کھینچ کر لانے کا ،،
دو باتوں کا خیال ھمیشہ رکھنا چاھئے ، جس طرح انسانی جسم کے بڑھنے کے مراحل ھوتے ھیں ،، اور ابتدائی دور میں تبدیلیاں جھٹ پٹ آتی ھیں مگر پھر ایک وقت آتا ھے کہ تبدیلی کا یہ عمل رک جاتا ھے ، اسی طرح جماعت میں ابتدائی دور میں تبدیلیاں چھم چھم برستی ھیں ،، مگر پھر ایک وقت آتا ھے کہ انسان پر نفسیاتی جمود طاری ھو جاتا ھے ،، سہ روزہ ھو یا چلہ ، سال کی جماعت ھو یا ڈیڑھ سال کی ، انسان کے اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاتی البتہ وہ دوسروں میں تبدیلیاں لانے کا سبب ضرور بنا رھتا ھے ، ایک تعمیر ھوتے ھوئے ستون میں فوری تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ھیں ،، پھر اس کی اپنی ذات کی تبدیلی رک جاتی ھے اور اس کے زور پہ چھت پہ تبدیلیوں کا عمل شروع ھو جاتا ھے ،، اگر گھریلو معاملات میں بھی اکرامِ مسلم اور قربانی و ایثار کا وھی جذبہ دکھایا جائے جو جماعت میں اختیار کیا جاتا ھے تو جماعت میں آج بھی معاشرے کو جنت نظیر بنانے کا Potential موجود ھے !