سادگی پارٹ – 6
ھم پردیسی ھوئے تو والد صاحب نے سب سے پہلا سبق پڑھایا کہ جب بھی کوئی آپ سے بات کرے تو آپ نے اسے جواب دینا ھے ” انا عربی ما اعرف ” ھم مخاطب کو جب عربی لہجے میں تجوید کے پورے مخارج کا خیال رکھتے ھوئے بتاتے کہ ھمیں عربی نہیں آتی تو وہ بھی سھیل وڑائچ کی طرح حیران ھو کر پوچھتا کہ عربی بول کر کہتے ھو کہ عربی نہیں آتی ،، کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ھے ؟ ھم اسے عربی کہہ کر اپنا چہرہ اپنے دائیں ھاتھ کی ہتھیلی پر لٹا کر اور آنکھیں بند کر کے سمجھاتے کہ ، اس کے بعد ھماری عربی سو گئ ھے ،،
دس تک گنتی سکھائی گئ جس میں ھمیشہ تسعہ اور ستہ نے کنفیوز رکھا ،، ھم ستہ کی جگہ تسعہ کہہ دیا کرتے تھے ،، آخر ھم نے عربی سیکھنے کا ایک کریش پروگرام شروع کیا ،،جس کے لئے طوطا کریسی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا ،، طوطے کو بات چیت پر مجبور کرنے اور پھر کچھ سکھانے کے لئے سبز مرچ کھلائی جاتی ھے ،، بس کھا کر اسے جب مرچیں لگتی ھے تو وہ ٹیں ٹیں کرتا ھے ، اس وقت اسے الفاظ پکڑائے جاتے ھیں کہ ” میاں مٹھو چوری کھاسیں ” یا گڈ مارننگ ،، مگر اصل میں وہ طوطا گالیاں دینا چاھتا ھے اور آپ اس سے مثبت کام لے لیتے ھیں ،وہ ھم پہ اعتبار کر کے سمجھتا ھے کہ یہ جملہ بولوں گا تو مرچیں ختم ھو جائیں گی اور ھم اس کے اعتماد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں ،،پڑوس کے ایک عربی لڑکے کو ھم سارے بھائی گھیر لیتے اور اسے خوب تنگ کرتے ،، جس پر وہ جتنی گالیاں دیتا وہ ھم نوٹ کر لیتے اور شام کو والد صاحب سے ان کا ترجمہ سیکھتے ،، ھم جوابی عربی بھی اس کے ساتھ بولا کرتے جو عموماً گلاساً وۜ چمچًا وَۜ کھیراً و پلیٹاً وۜ حلوی الکتاب و کُکڑ الذین و سیمیاں ھُو و دالُہ پر مشتمل ھوتی ،، مگر اس بات کا خاص اھتمام ھوتا کہ لہجہ عربی ھی نظر آنا چاھئے ،،ھماری عربی سن کر اس ” تُلُنگے” عربی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں ، تُلُنگا نام اس کو نہایت کمزور اور پتلا ھونے کی وجہ سے ھمارے بھائی نے دیا تھا ،، آخر تنگ آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ یہ لڑکے مجھے تنگ کرتے ھیں ،، اس کا والد پولیس میں کام کرتا تھا ،،
امی جان بیمار ھو کر اسپتال داخل تھیں اور ھمیں چالیس دن کی بہن کو سنبھالنا پڑ رھا تھا ،، اس شدید گرمی میں ھم لکڑی کے بنے کمرے میں کہ جس کا فرش کچا اور ریتلا تھا ، ایک گڑھا کھودتے پھر اس کی ریت کو پانی سے بھر کر ٹھنڈا کرتے ،، اور پھر بہن کو اس میں لٹاتے ،، نیڈو کا پاؤڈر دودھ فیڈر بنا کر پلاتے ، اور پانی چولہے پہ رکھ کر چاول ڈال دیتے جو کہ ابل ابل کر پانی اندر ھی خشک ھو جاتا اور چاول بھات بن جاتے ،، ابا جی بھی صبر شکر کر کے کھا لیتے ،، مگر وہ سمجھ نہیں پائے کہ چاول کا یہ بھُرتہ ھم کیسے بناتے ھیں ،، آخر انہوں نے پوچھ ھی لیا کہ یہ چاول ھی ایسے ھیں یا تم ان کے ساتھ کوئی خاص حرکت کرتے ھو ؟ ھمارا فارمولہ سن کر انہوں نے سمجھایا کہ چاول جب ابل جائیں تو پانی نکال دیتے ھیں ،، ھم تو چاول پکانے میں لگے ھوئے تھے ،، ادھر عربی کلاس کا وقت بھی ھو گیا ،، ھم نے چھوٹے بھائی کو ھی جہاد پر بھیج دیا کہ آج آپ اکیلے ھی جاؤ،، وہ بھی ” چل چل رے نوجوان ،ڈرنا تیرا کام نہیں ،لڑنا تیری شان پڑھتا ھوا چلا گیا ،،مگر ابھی ھم نے پانی والا دیگچہ رکھا ھی تھا کہ ،، ٹھاہ ٹھاہ ،، تڑال تڑال ،دھما دھما ،، اور رونے دھونے اور ھائے مر گیا ،کی آوازیں آنا شروع ھوئیں ،، ھم باھر دوڑے کہ مسئلہ کیا ھے ؟ کہیں تُلُنگہ آج ڈاکٹر جیکل والا عفریت تو نہیں بن گیا ،،،،،،، دور سے دیکھا کہ اس تُلنگے کا باپ شرطے کی وردی میں ،، چھوٹے بھائی کی سروس کر رھا ھے ،، وہ چھپ کر دیکھتا رھا ،جونہی میرے بھائی نے اس کے بیٹے کا رستہ روکا وہ چیل کی طرح دروازے سے نکلا اور سارے بدلے چکا لئے ،، ھمارے خون نے بھی جوش مارا ،مگر ھم نے اس کا گیئر تبدیل کر کے ریورس میں کر لیا اور دروازے کی اوٹ سے بھائی کی درگت دیکھتے رھے ، تا کہ کل اسے اس کا طعنہ دیا جا سکے ،،
سادگی ـ 7 اسٹار !
یوگا اور تصوف سے ھمیں شروع سے ھی لگاؤ رھا ھے ،، چلہ ھم نے چالیسویں میں ھی شروع کر دیا تھا ،، جو کہ کسی ناریل کے پیڑ پہ نہیں بلکہ ریلوے لائن کے درمیان کیا گیا تھا،، اور کسی جن بھوت کے سامنے نہیں ایک کتے کے سامنے ،،،،، اب یہ کتے کی کمزوری تھی کہ وہ ھمیں لے کر درخت پہ نہیں چڑھ سکا،، ورنہ چالیسویں میں ھم ایک گلاس میں میں بھی سما سکتے تھے ،کوئی اتنا خاص وزن نہیں تھا آئزک نیوٹن کی طرح ،،،،، بات ادھوری رہ گئ تو شاید نئے دوست کنفیوز رھیں گے ،،،،،،
ابوظہبی آ کر بھی ھمارا یہ شونق مرا نہیں تھا ،، ھم نے ” زندہ رھو جوان رھو ” نامی کتاب کی تمام مشقیں زبانی یاد کر رکھی تھیں ،، پہلے وہ کرنے کے بعد ،، پھر پندرہ منٹ سر کے بل کھڑے ھو جاتے اور جب خون کے بہاؤ کی وجہ سے غنودگی طاری ھونے لگتی تو مراقبے پہ بیٹھ جاتے ،، صرف جانگھیا زیبِ تن ھوتا باقی سارا بدن زیتون کے تیل میں گَچ ھوتا ،،،،، اور ھم چم چم کرتے ،لشکیں مارتے مہاتما بدھ کے مجسمے کی طرح ٹانگیں لپیٹے آواگون کی تلاش میں مراقبے میں مشغول ھوتے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ھمارے چاروں طرف ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں ، واشنگ مشینیں ،، فریج اور ڈھیر سارا کاٹھ کباڑ ھوتا ،، اس کے بالکل درمیان میں کھلاڑے جتنی جگہ ھم نے صاف کر کے اپنا ورزشی اکھاڑہ بنا رکھا تھا ،،
عشاء کے بعد کا وقت تھا کہ ھماری بدقسمتی سے شرطے کی گاڑی اس اکھاڑے والے کچرے کے پاس سے گزری ،،، چوریاں بہت ھو رھی تھیں اور پولیس کی غیر معمولی پیٹرولنگ ھو رھی تھی ،، پولیس والوں نے اس کباڑ خانے کا جائزہ لینے کا پروگرام بنایا ،،
وہ دبے پاؤں اکھاڑے میں اتر آئے ،،،، آگے ایک ننگ مَنَنگے مسٹنڈے کو تیل میں تر بتر آلتی پالتی مارے دیکھ کر ان کا تراہ تو ضرور نکلا ھو گا مگر چونکہ ھماری آنکھیں بند تھیں لہذا ھم وہ تراہ دیکھ نہ سکے ،،، انہوں نے جب گھسر پھسر شروع کی جو کہ یقیناً اسی موضوع پر ھو گی ،، کہ لو جی چور چوری کی تیاری کرتے ھوئے رنگے ھاتھوں پکڑا گیا ھے ،، اب ھماری ترقی بھی لازمی ھو گی اور ایک دوسرے کی پارٹی کرنے کے وعدے وعید بھی ھوئے ھوں گے ،، مگر ھم اس کھسر پھسر کو عالم ارواح کی ھل چل سمجھ رھے تھے کہ جہاں ھماری دخل اندازی پر روحیں ،سراسیمگی میں ادھر ادھر دوڑتی پھر رھی تھیں ،،، مگر جب شرطوں نے زور سے ڈانٹ پلائی تو ھماری آنکھیں کھلیں ،،،،، اور پھر کھلی کی کھلی رہ گئیں ،،، سوچا وردی والے مؤکل تو ھمارے دادا جی کو بھی نصیب نہیں ھوئے تھے ،، یہ موکل نہیں ھو سکتے ،، کوئی گڑبڑ ھو گئ ھے ،، ایک شرطے نے ھم پہ لائٹ مار کر پوچھا ،، کیا کر رھے ھو بھائی ،، میں نے کہا کہ کندورہ ڈھونڈ رھا ھوں ، لائٹ جلائے رکھنا یار ،،،، شرطہ ھماری بے تکلفی پہ کافی حیران ھوا ،، مگر اس کی حیرانی ختم ھونے سے پہلے ھم اپنا کندورا ڈھونڈ کر اوپر سر کی طرف سے نیچے باڈی پہ گرا چکے تھے اور سر بھی باھر نکال چکے تھے ،،،،، کپڑوں میں آتے ھی ناصر عمانی کے ابا جی نے ھمیں پہچان لیا ،،،،،،،،،،، اس کا بیٹا ناصر میرے پاس سبق پڑھتا تھا ، عمانی جادو کو بہت مانتے ھیں ،، بلکہ بڑے بڑے جادوگر ان کے علاقے میں پائے جاتے ھیں ،، ھمارا یہ روپ دیکھ کر وہ بھی حیران ھو گیا ،، یا شیخ ! شُو تسوی ؟ یہ کیا کر رھے ھو بھائی ؟ کاروائی پوری کرنے کے لئے ھم زیتون کے تیل کی شیشی سمیت تھانے حاضر ھوئے ،، انہیں بتایا کہ ھم اپنی فٹنس کا کتنا خیال رکھتے ھیں ،، ناصر کے ابا کی گواھی پہ ھمارے بیان کو سچ تسلیم کر کے ھمیں جھٹ پٹ فارغ کیا گیا ،، اور اس کے بعد وہ سارے شرطے اپنے مسائل لے کر حاضر ھوا کرتے کہ ” یا شیخ واللہ میرے سالے نے بہت تنگ کر کے رکھ دیا ھے ،اسے پھڑکا دے ،، ایک صاحب کہنے لگے یا شیخ واللہ منہ مانگے پیسے دونگا بس میرا فلاں کام ھو جانا چاھئے ،،ھم جتنا انکار کرتے ، وہ اُتنا اصرار کرتے ،،،، کیونکہ وہ ھمیں ریڈ ھینڈڈ یعنی کہ رنگے ھاتھوں پکڑ چکے تھے ،، شکر انہوں نے مجھے الٹا کھڑے ھوئے نہیں دیکھ لیا تھا ، ورنہ پتہ نہیں کیا سمجھتے