دیہات میں لوگوں کی ایک عادت ھے کہ وہ لنگتے پلنگتے ،، یعنی چلتے پھرتے جس خانقاہ کے پاس سے گزرتے ھیں اسے ھاتھ لگا کر پھر ھاتھوں کو چومتے اور کانوں کو لگا کر توبہ تائب کرتے ھیں ،،، روزہ رسول ﷺ کے سامنے ایک دیہاتی سا بندہ کھڑا تھا وہ کب سے اس تاک میں تھا کہ شرطے کی نظر ذرا سی چُوکے اور وہ اس بڑی خانقاہ کی جالی کو ھاتھ لگا کر چومے ،،،، مگر شرطہ تھا کہ قسم کھائے بیٹھا تھا کہ کسی کو شرک نہیں کرنے دے گا ؛ البتہ بے نظیر یا پرویز مشرف ھو تو پھر یہ لوگ پروٹوکول کے ساتھ حضورﷺ کی قبر مبارک پر لے جا کر سرکاری شرک کروانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ،، یہ ڈبل اسٹنڈرڈ ھے ان کے دین اور توحید کا ،،،،،،،،،،،،،،
بابا بےچارہ للچا رھا تھا ،، اسے کچیچیاں چڑھ رھی تھیں اور شرطہ ظالم سماج بن کر راہ میں حائل تھا ،،، آخر بابا جوشِ جنون میں گھوں گھوں گھوں کرتا جالیوں کی طرف بڑھا اور شرطے نے ٹھیک سینے پر ھاتھ رکھ کر اسے روک لیا ،، اب بابا آگے زور لگا رھا ھے اور شرطہ پورے زور سے اسے پیچھے دھکیل رھا ھے کہ ، اچانک بابے نے دھوبی پاٹ مارا اور شرطے کو حیران کر کے چلا گیا ،،، ھوا یہ کہ بابے نے اچانک زور لگانا چھوڑا ، شرطہ جو ایک ھاتھ سے جالی پکڑ کر لٹکے ھوئے تھا اور دوسرے ھاتھ سے لوگوں کو دھکے دے رھا تھا ،، شرطے کے ھاتھ کو مضبوطی سے اپنے دونوں ھاتھوں کی گرفت میں لیا ،، پہلے اس کے ھاتھ کو بجلی کی تیزی سے تھام کر چوما اور پھر اپنے سینے پر مل کر پیچھے ھٹ گیا ،، اور پنجابی میں کہا ” قیامت والے دن تیرے کولوں اتھے لے لاں گا ” ،، میں یہ پیار قیامت کے دن میدانِ حشر میں تم سے ٹرانسفر کرا لوں گا ،،،، شرطہ ہکا بکا ،، ایش ھذا یا اخی ؟ دوسرے نے اسے اشارے سے بتایا کہ تم نے جالی کو تھاما ھوا تھا ،، بابے نے تیرا ھاتھ تھام کر کال ملا لی ھے ،، تو اب موج کر ،،،،،
ساس اور بہو آپس میں لڑ رھی تھیں جبکہ بیٹا پاس کھڑا خاموشی سے یہ میچ دیکھ رھا تھا ،، جب بھی تبصرہ کرتا تو بیوی کے پؤائنٹ پر ھی کرتا ،، ایک راہ گُزرو نے اسے شرم دلائی کہ یار یہ ماں تیرا حج کعبہ ھے ،،، کچھ خیال کر ،،،،،،، کہنے لگا بھائی جی بیوی بھی کوئی کم شے نئیں خانقاہ درگاہ ھے ،، حج زندگی میں ایک ھی فرض ھے ،،،،،،، اور خانقاہ درگاہ کو روزانہ لنگتے پلنگتے چلتے پھرتے چوم کر گزرتے ھیں ،