عبادت کی ھیئت اور کیفیت Body and soul
جس طرح انسان دو چیزوں کا مجموعہ ھے یعنی بدن اور روح کا،اسی طرح عبادت بھی دو چیزوں کا مجموعہ ھوتی ھے، ھیئت اور کیفیت کا،ھیـئت اس کا بدن ھوتی ھے اور مفتی کے فتوے کا میدان،جسطرح کوئی ڈاکٹر کسی بدن کا ھی تجزئیہ کر کے بتا سکتا ھے کہ وہ کن کن بیماریوں کا شکار ھے،مگر روح ایک ڈاکٹر کے بلڈ ٹیسٹ یا سی ٹی اسکین یاا یکسرے کا موضوع نہیں ،اسی طرح ایک مفتی بس عبادت کے اجــزاء کا تجزیئہ کر کے یہ ھی بتا سکتا ھے کہ یہ نماز ھوئی ھے یا نہیں، حج میں کہاں کمی رہ گئی ھے اور یہ کس طرح دور ھو گی،کن کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ھے،، مگر وہ عبادت جس کیفیت میں کی جانی چاھئے اس کیفیت میں ھو رھی ھے یا نہیں،، اس کا پتہ یا تو خود انسان کو ھوتا ھے یا اس کو جس کے لئے کی جارھی ھے،، ھـیئت کی کمیت کو ناپا جا سکتا ھے مگر کیفیت کو نہیں ناپا جا سکتا،سوشل رویئے ھی اس کی کمی بیشی کا اظہار کرتے ھیں ، ھیئت محدود ھوتی ھے جن کی موجودگی سے اس کے عدم اور وجود کا فتوی دیا جاتا ھے،یعنی نماز میں،نیت،قیام،قرات رکوع اور سجدہ اس کے اجزاء و اعضاء ھیں،ان میں سے کسی کی کمی پر کہا جاتا ھے کہ نماز ھے یا نہیں ھے،مگر کیفیت کسی مفتی کے تجربے میں نہیں آ سکتی اور اس کی بنیاد پر نماز کے عدم کا حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ چونکہ اپ کی کیفیت اتنی نہیں تھی لہذا نماز نہیں ھوئی،،یا روزہ نہیں ھوا یا حج نہیں ھوا،، اسی وجہ سے ھمیں بھی اس کیفیت کی کوئی پرواہ نہیں ،جب نماز ھو جاتی ھے تو پھر کیفیت کی فکر کیوں کریں،،مگر دوسری جانب جو کام عبادت کی کیفیت کرتی ھے وہ ھیئت نہیں کرتی،، فرمایا نماز تو وہ ھے جو بے حیائی اور برے کاموں سے روک دیتی ھے،، اب ھم اگر پانچ وقتہ نمازی اور سات وقتہ رشوت خور ھیں تو یہ نماز یا حج کی کیفیت کی کمی کی وجہ سے ھے،، بجلی کے وولٹیج کم ھوں تو فریج جل جاتا ھے،، عبادت کے وولٹیج یعنی کیفیت ناقص ھو تو کردار جل جاتا ھے،، ھیئت جگہ کے ساتھ منسوب و محدود ھوتی ھے،جیسے نماز مسجد میں اور حج مکے میں،، مگر کیفیت جگہ سے منسوب ومحدود نہیں ھوتی،، وہ تو ھر جگہ ساتھ ھوتی ھے اور ھونی چاھئے،، مسجد سے چارج ھو کر بازار جاؤ اور پورا تولو ،سچ بولو اور پھر اگلی نماز کے لئے آ کر چارجر اسٹینڈ پر لگ جاؤ،، جس کو اقبال نے کہا ھے کہ،” دی فاینائٹ ایگو اینڈ دا ان فاینائٹ ایگو ،دے کم فیس ٹو فیس،، تمہیں یاد رھے کہ بے ایمانی کر کے اسی وضو میں ابھی اللہ کو جا کر فیس کرنا ھے،منہ دکھانا ھے اور تم منہ کالا نہ کرو،عجیب بات ھے،وضوء بچانے کے لئے انسان اپنے پر کتنا جبر کرتا ھے،اس کا دس فیصد بھی ایمان بچانے کے لئے نہیں کرتا ،حالانکہ بغیر وضوء مر جائے تو حرج نہیں،بغیر ایمان مر گئے تو خسرالدنیا والاخرہ، ھیئت کا وقت ھے،مگر کیفیت کا کوئی وقت مقرر نہیں ،،یہ ھر وقت مطلوب ھے،بلکہ یہ مطلوب ھی ان مرحلوں یا مقامات کے لئے ھے جہاں ایمان کی گاڑی ہچکولے کھانا شروع کرتی ھے یا پھنس جاتی ھے،وھاں یہ کیفیت فور بائی فور کا کام کرتی ھے، جن لوگوں نے رھنا ھی غاروں میں ھے، اور دائیں بائیں ھرنیاں اور خرگوش دیکھنے ھیں، درختوں کے پھل کھا کے پانی پی کے سو جانا ھے، ان کو اس کی اتنی ضرورت نہیں ،ان کا کام ھیئت سے بھی چل جاتا ھے،، مگر جنہوں نے دائیں بائیں حوریں دیکھنی ھیں اور نظروں کو جھکانا ھے،اس شٹر ڈاؤن مرحلے کے لئے وہ کیفیت درکار ھے،، ان تمام عبادات کا مقصد یہی کیفیت پیدا کرنا ھے،جسے کبھی تقوی کہا جاتا ھے،تو کبھی خدا خوفی کا نام دیا جاتا ھے،، قرآن حکیم ان دونوں صورتوں کا بار بار مطالبہ کرتا ھے،وہ کہتا ھے کامیاب وھی مومن ھوں گے جن کی نمازوں میں خشوع کی کیفیت پیدا ھو گی،اللہ کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے اس کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کے رونگھٹے کھڑے ھو جائیں اور یہ کیفیت صرف نماز کے دس منٹ پیدا ھو کرمسجد کی سیڑھیوں پر ھی دم نہ توڑ دے بلکہ وہ دائم و قائم رھے،، جب آپ موبائیل کو چارجنگ پر لگاتے ھیں تو اس کی باڈی ایک کیفیت کا اظہار کرتی ھے اور چارجر کی لائٹ جل جاتی ھے،، اب آپ اس موبائیل کو لے کر کہیں بھی جائیں وہ چارجنگ کی کیفیت ساتھ ساتھ جاتی ھے چارجر گھر ھی رہ جاتا ھے،لیکن جب آپ کو ضرورت پڑے اور اسی وقت چارجنگ دوران گفتگو جواب دے جائے تو آپ کا کیا ری ایکشن ھوتا ھے؟ وھی ری ایکشن نمازی مومن کے عین ضرورت کے وقت بے ایمانی کر جانے پر اللہ کا ھوتا ھے،، اللہ کا غضب ایسے نمازی پر بھڑک اٹھتا ھے،،فویلٓ للمصلین،،ھلاکت ھے نمازیوں کے لئے ،جو اپنی نماز کے مقصد سے غافل ھیں،مجرد بے روح نمازوں کے جنازے اٹھائے پھرتے ھیں،ریاکاری کے مرتکب یہ نمازی کسی کو عام استعمال کی چیز تک شیئر کرنے سے کتراتے ھیں،،نماز میں ایک تو مطالبہ خشوع کا ھے اور دوسرا اس کیفیت کی حفاظت کا ھے کہ اس کیفیت کو ” سیو” کرلو اور تیسرا مطالبہ اس کیفیت کے دوام کاھے،الذین ھم علی صلواتھم یحافظون اور الذین ھم علی صلاتھم دائمون،، جو اپنی نماز کی کیفیت کو محفوظ کر کے دائم رکھتے ھیں،،روزے کا مقصد بھی تقوی بیان کیا گیا ھے،لعلکم تتقون،، اور تقوی بھی ایک کیفیت ھے،جس میں قلب انسانی سرشار ھوتا ھے، اور یہ خلوت جلوت ھر دوحال میں انسان کے شاملِ حال ھوتا ھے،بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ” نیک وہ نہیں جس کی جلوت یا مجلس پاک ھو،، نیک وہ ھے جس کی خلوت پاک ھو ” وہ اکیلے میں بھی اللہ سے اسی طرح حیاء کرے جسطرح مجلس میں لوگوں سے حیاء کرتا ھے،،نبی کری
م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھے کہ بہت سارے لوگوں کو روزے سے سوائے بھوک کے اور کچھ حاصل نہیں ھوتا اور بہت سارے قیام کرنے والوں کو سوائے رت جگے کے اور کچھ نہیں ملتا،، نیز فرمایا نماز سب پڑھتے ھیں مگر کسی کو نماز کا آدھا ملتا ھے،کسی کو تییسرا حصہ،کسی کو چوتھا،اس طرح حضورﷺ نے دس حصے گنوائے ھیں، پھر حج کے بارے میں سورہ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ھے،لن ینال اللہ لحومھا ولا دماءھا ولکن ینالہ التقوی منکم،، اللہ پاک کو تمہاری قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ھے کہ وہ جانور تول کر تمہیں اجر دے گا،،اور نہ خون پہنچتا ھے،، بلکہ وہ تو اجر کا فیصلہ اس تقوے کی بنیاد پر کرتا ھے جو اس قربانی کے پیچھے ھوتا ھے،، افسوس تو یہ ھے کہ قرآن جتنا کیفیت پر زور دیتا ھے ھم اتنا ھی اسے غیر اھم سمجھتے ھیں اور جن چیزوں کو وہ کوئی اھمیت نہیں دیتا ان پر ھم نے مسجدیں الگ کر لی ھیں ! نتیجہ آپ کے سامنے ھے کہ اب دیانتدار آدمی کو دیکھنے کے لئے شاید ٹکٹ لگانے کی نوبت آ جائے کہ وہ اتنا ناپید ھو گیا ھے، حرم میں منزلوں پر منزلیں بن رھی ھیں، حج مہنگا ھو گیا ھے بلکہ اب لگژری بن کر رہ گیا ھے، حاجیوں کا سیلاب سنبھالا نہیں جارھا شیطان بھی لمبا ھو گیا ھے جو ایک تندور جتنا تھا آج کل ٹریڈ سنٹر جتنا ھو گیا ھر سال 30 لاکھ حاجی ری سائیکل ھو کر آتے اور معاشرے کا حصہ بن جاتے ھیں ،مگر معاشرے مین بے ایمانی ھے کی کنٹرول سے باھر ھو گئی ھے،،ایک ھی خدا کے ایک ھی گھر کے چکر لگا کر آنے والوں میں نفرت کا تناسب بھی بڑھتا جا رھا ھے،،یہ سب مظاھر پرستی کا تحفہ ھے، اندر کوئی جھانکنے کو تیار نہیں کوئی پڑوسی سے نہیں پوچھتا کہ میں کیسا ھوں؟ نبی کریم سے ایک شخص نے سوال کیا تھا،ائے اللہ کے رسول مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نیک ھوں یا بد،اچھا ھوں یا برا،ھر انسان اپنے کو تو اچھا سمجھتا ھے ؟ آپ نے فرمایا اگر تیرا پڑوسی کہے کہ تو اچھا ھے تو تُو یقیناً اچھا ھے اور اگر تیرا پروسی کہے کہ تو برا ھے تو جان لے کہ تُو برا ھے، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں،، کیا ھم اپنے پڑوسی سے یہ سوال پوچھ سکتے ھیں ؟ کیا ھم حشر یہیں بپا کر کے نہ دیکھ لیں کہ ھم کیا ھیں، کیسے ھیں ؟؟ھیئت اگر علماء کے نوکِ نشتر پہ رھتی ھے تو کیفیت زاھد کا میدان ھے،وہ کیفیت پر زور دیتا ھے،اس کیفیت کو وہ عشق کا نام دیتا ھے،اس کے نزدیک عشق ھی وہ جذبہ ھے جو جلوت و خلوت میں انسان پر حاوی رھتا ھے،اگر اللہ کے احسانات کے استحضار کے نتیجے میں عشق کو پال لیا جائے تو پھر خواھشاتِ نفسانی سمیت ھر چیز کو اللہ پر قربان کرنا آسان ھو جاتا ھے، اللہ پاک کا مطالبہ بھی یہی ھے کہ میری عطا کردہ نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے ان سے محبت کرنے والے اخرت میں خائب و خاسر ھوں گے،جبکہ منعمِ حقیقی کو پہچان کر اس سے شدید محبت کرنے والے ھی حقیقی مومن ھیں،و من الناس من یتخذ من دون اللہ انداداً یحبونھم کحب اللہ،والذین آمنوا اشدُ حباً للہ( البقرہ ) سورہ آل عمران میں فرمایا لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون،، تم نیکی کی حقیقت کو پا نہ سکو گے جب تک کہ تم اللہ کی محبت میں اسے نہ خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ھو،، اقبال نے اس کیفیت کو جذبِ دروں کا نام دیا ھے، اور مسلمانوں کے ایتشار اور پستی کا سبب اسی بے روح عبادت کو قرار دیا ھے،وہ کہتا ھے
،
مسلماں میں خـــوں باقی نہیں ھے
محبت کا جنــوں باقی نہیں ھے
صفیں کـــج ،دل پریشاں،سجدہ بے ذوق
کہ جـــذبِ انــدروں باقـــی نہــیں ھے
اس بے کیفیت عبادت اور پھر دیگر رسوم کے ذریعے محبت ثابت کرنے کے رجحان پر عنائت صاحب کا اپنا رونا ھے
میری یہ عقیدتِ بے بصر ،میری یہ عبادتِ بے ثمــر
مجھے میرے دعوئ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
تو شوق موسوی کا اپنا انداز ھے
کئی فرقوں میں بٹتے جا رھے ھیں
کہ روحِ دیں سے ھٹتے جا رھے ھیں
سبھــی پنــد و نصــائـح کر رھے ھیں
ھمــــارے کان پھٹـتے جا رھے ھیں
عـمــل قـــرآن پر کــرتے نہــیں ھـیں
فقــط الفــاظ رٹتے جــا رھے ھیں
نمــــازی مسجـــــدوں میں بڑھ رھے ھیں
مگـــــر انسان گــــھٹـتے جــا رھے ھیں