ھدایت کی دو قسمیں ھیں ،، ایک اندر ھوتی ھے ،، جس کے بارے میں موسی علیہ السلام سے کہلوایا گیا ،، ربنا الذی اعطی کل شئٍ خلقہ ثمہ ھدی ،، فرعون کے اس سوال کے جواب میں کہ اے موسی تم دونوں کا رب کون ھے ؟ جواب دیا ،، ھمارا رب وہ ھے جس نے ھر چیز کو وجود بخشا پھر اسے اس کا کام سجھایا ،، جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ، اما ثمود فھدیناھم فأستحبوا العمی علی الھدی ،، جہاں تک ثمود کا تعلق ھے تو ھم نے انہیں ھدایت دے دی تھی ،مگر انہوں نے اندھے پن کو ھدایت پر ترجیح دی تو انہیں عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا –
دیکھنے کے لئے اندر کی روشنی بھی ویسی ھی ضروری ھے جیسے باھر کی روشنی ، اگر سورج نصف النھار پر ھو مگر انسان کے اندر کا نظام درست نہ ھو تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا ، باھر کی دھوپ بھی اس کے لئے عبث چیز ھو گی ،، اسی طرح اگر انسان کے اندر رکھی گئ ھدایت کی چنگاری اس کی بے ضمیری کی وجہ سے بجھ گئ ھے تو یقین کریں اس کو طور کی تجلی بھی راہ نہیں دکھا سکتی ،،
ھدایت کا ضابطہ یہ ھے کہ جو ھدایت آپ کے اندر رکھی گئ ھے ،ھدایتِ فطرت ،، کل مولودۤ یولد علی الفطرہ ،، اس ھدایت کو استعمال کریں ، دیانتداری کے ساتھ حق کا ساتھ دیں اگرچہ وہ آپ کی مخالف صف میں کھڑا ھو ،، تو اللہ کی باھر سے ارسال کردہ ھدایت ،ھدایتِ وحی آپ کا ھاتھ پکڑ لے گی ،،یہ ایک ھی نوٹ کے پھٹے ھوئے دو ٹکڑے ھیں ،، ایک ٹکڑا آپ کے اندر اور دوسرا رسول کے پاس ھوتا ھے ،، اپنے اپنے ٹکڑے لے کر رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ھو جاؤ اور نوٹ کو جوڑ لو تا کہ ھدایت کا ضابطہ مکمل ھو ،، اگر یہ نہیں ھے تو پھر نبی ﷺ کے پڑوس میں رھنے والے تایا ابولھب کو بھی بھتیجے کی رسالت سے ھدایت کا ذرہ بھی نصیب نہیں ھوتا ،حالانکہ قرآن اس کے قبیلے کی زبان میں نازل ھو رھا تھا ،،،