ابا حضور پندرہ سو کے مقروض ھو گئے تو قرض اتارنے کے لئے یونان جانے کی نیت سے کابل چلے گئے ، پاسپورٹ کا زمانہ نہیں تھا ، پاکستانیوں کو پاسپورٹ اور سیاست بھٹو شہید کی عطا ھے ،، ورنہ سیاست ڈرائنگ روم اور پاسپورٹ سفارتکاروں کے بنتے تھے ،، قائدِ اعظم کے بعد اگر کوئی ویژن والا لیڈر تھا تو وہ بھٹو تھا ،، امارات نے پچھلے تین سال سے آئی ڈی شروع کی ھے ، انڈیا اور بنگلہ دیش میں اب بھی نہیں ھے ،مگر بھٹو نے 1974 میں ” آپ کون ؟” آپ کون؟ ” کی گونج میں شناختی کارڈ شروع کیا ،، عوام کو پاسپورٹ دیا ،، بلکہ ایک بندے کو چار چار پاسپورٹ دیئے ،، جب گلف والوں نے گلہ کیا کہ ایک بندے کے پاس چار چار پاسپورٹ ھیں ،، تو جواب دیا پاسپورٹ ھمارا پرابلم ھے آپ کا نہیں ،، یہ بتایئے بندہ تو ایک ھی ھوتا ھے ناں پاسپورٹ چاھے دس ھوں ؟
خیر کابل سے یونان کی بجائے دبئ کو بھیج دئیے گئے براستہ ایران ،، ایران میں بھی سعودیہ کی طرح لمبا سفر ھوتا ھے یعنی ایک شھر سے دوسرا شھر 1000 کلومیٹر ،، بس بہت کم رکتی تھی ،، اور ابا جان ایک اور دوست کے ساتھ لانگ شوز شیئر کر رھے تھے ،جہاں بس رُکتی لانگ شوز خالی کر لیئے جاتے ،، جو اگلی منزل تک پھر بھر جاتے ،، بندر عباس سے دبئ کے لئے روانہ کی گئ لانچ ،،،،،،،، نے آدھے بندے سمندر میں پھینک دیئے اور چند بندے تیر کر جزیرے تک پہنچے جن میں ایک والد صاحب بھی تھے ، 1967 کی بات ھے ،،،،،،،، چند دن اس چھوٹے سے جزیرے میں بھوکا پیاسا رھنے کے بعد ایک گزرتی ھوئی لانچ والے نے ترس کھا کر اٹھا لیا اور فجیرے کے پاس سمندر میں چھوڑ کر چلی گئ ، وھاں سے تیر کر کنارے لگے ،، والد صاحب کی آپ بیتی اپنی جگہ نہایت دردناک ھے ،،مگر یہ چھوٹا سا کلپ اس لئے دکھایا ھے کہ اس کے بعد ھم پر گزرنے والے حالات کے مدنظر والد صاحب آپ کو ولن نہ لگیں ،، وہ اپنی مصیبت میں پھنسے ھوئے تھے اور ھم پیچھے اپنے عذاب میں پڑے ھوئے تھے ،،
جاری ھے
خیر کابل سے یونان کی بجائے دبئ کو بھیج دئیے گئے براستہ ایران ،، ایران میں بھی سعودیہ کی طرح لمبا سفر ھوتا ھے یعنی ایک شھر سے دوسرا شھر 1000 کلومیٹر ،، بس بہت کم رکتی تھی ،، اور ابا جان ایک اور دوست کے ساتھ لانگ شوز شیئر کر رھے تھے ،جہاں بس رُکتی لانگ شوز خالی کر لیئے جاتے ،، جو اگلی منزل تک پھر بھر جاتے ،، بندر عباس سے دبئ کے لئے روانہ کی گئ لانچ ،،،،،،،، نے آدھے بندے سمندر میں پھینک دیئے اور چند بندے تیر کر جزیرے تک پہنچے جن میں ایک والد صاحب بھی تھے ، 1967 کی بات ھے ،،،،،،،، چند دن اس چھوٹے سے جزیرے میں بھوکا پیاسا رھنے کے بعد ایک گزرتی ھوئی لانچ والے نے ترس کھا کر اٹھا لیا اور فجیرے کے پاس سمندر میں چھوڑ کر چلی گئ ، وھاں سے تیر کر کنارے لگے ،، والد صاحب کی آپ بیتی اپنی جگہ نہایت دردناک ھے ،،مگر یہ چھوٹا سا کلپ اس لئے دکھایا ھے کہ اس کے بعد ھم پر گزرنے والے حالات کے مدنظر والد صاحب آپ کو ولن نہ لگیں ،، وہ اپنی مصیبت میں پھنسے ھوئے تھے اور ھم پیچھے اپنے عذاب میں پڑے ھوئے تھے ،،
جاری ھے