اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ھیں کہ چار آدمی قیامت کے دن کچھ یوں عذر پیش کریں گے ،
1- بہرہ شخص جو کچھ بھی نہیں سن سکتا تھا –
2- پاگل شخص –
3- بوڑھا شخص –
4- -وہ شخص جو زمانہ فترت میں مر گیا جبکہ کوئی رسول موجود نہیں تھا ،،یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور نبئ کریم ﷺ کے درمیان کے عرصے میں گزر گیا !
بہرہ عذر پیش کرے گا کہ ” اے اللہ مجھے تو کچھ سنائی ھی نہیں دیتا تھا ،لہذا میں تیری دعوت ھی نہ سن سکا،،
بےوقوف، احمق ،نادان نیم پاگل کہے گا کہ مجھے تو گھر والوں نے اونٹ اور بکریاں چرانے پہ ھی لگائے رکھا-
بوڑھا کے گا کہ جب دعوت آئی تو میری عقل گھاس چرنے گئ ھوئی تھی ،کوئی بات سمجھ لگتی ھے نہ تھی ” لکئ لا یعلم بعد علمٍ شیئاً”
زمانہ فترت میں مر جانے والا کہے گا کہ مولا میرے زمانے میں تو توحید کی کوئی دعوت ھی موجود نہ تھی میں بھلا کیسے ایمان لاتا ؟
اس پہ اللہ پاک ان سے خوب گاڑھا عہد لے گا کہ اب وہ اللہ جو بھی حکم دے گا اس کی اطاعت کریں گے ،،
اس عہد کے بعد اللہ پاک انہیں حکم دے گا کہ وہ آگ میں چھلانگ لگا دیں ،جس پر وہ مُکر جائیں گے ،،حالانکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ھے ،، اگر وہ اللہ کی اطاعت میں آگ میں چھلانگ لگا دیتے تو اسے ٹھنڈی اور سلامتی والی پاتے ،،یعنی جنت میں جا گرتے ،،،
یہی کچھ دنیا میں اھلِ ایمان کے ساتھ ھوتا ھے بظاھر وہ حالات جو انہیں مصیبت ، عذاب اور جان لیوا نظر آتے ھیں وہ حقیقت میں ان کی جنت ھوتے ھیں اور وہ ان کے ذریعے آزمائے جا رھے ھوتے ھیں
روى الإمام أحمد (16301) ، وابن حبان (7357) ، والطبراني في "الكبير” (841) عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( أَرْبَعَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : رَجُلٌ أَصَمُّ لَا يَسْمَعُ شَيْئًا ، وَرَجُلٌ أَحْمَقُ ، وَرَجُلٌ هَرَمٌ ، وَرَجُلٌ مَاتَ فِي فَتْرَةٍ ، فَأَمَّا الْأَصَمُّ فَيَقُولُ: رَبِّ ، لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَسْمَعُ شَيْئًا ، وَأَمَّا الْأَحْمَقُ فَيَقُولُ : رَبِّ ، لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَالصِّبْيَانُ يَحْذِفُونِي بِالْبَعْرِ، وَأَمَّا الْهَرَمُ فَيَقُولُ: رَبِّ، لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَعْقِلُ شَيْئًا، وَأَمَّا الَّذِي مَاتَ فِي الْفَتْرَةِ فَيَقُولُ: رَبِّ، مَا أَتَانِي لَكَ رَسُولٌ ، فَيَأْخُذُ مَوَاثِيقَهُمْ لَيُطِيعُنَّهُ ، فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ أَنْ ادْخُلُوا النَّارَ، قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ دَخَلُوهَا لَكَانَتْ عَلَيْهِمْ بَرْدًا وَسَلَامًا ) وصححه البيهقي في ” الاعتقاد ” (ص169) ، وكذا صححه الألباني في ” الصحيحة ” (1434) ، وقال الهيثمي في ” المجمع ” (7/ 216): ” رجاله رجال الصحيح ”