سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں 20 ویں اور 21 ویں نمبر پر نازل ھوئیں جب کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی ،اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی،نبی کریم ﷺ کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کر کے ان کے کانوں میں نبی ﷺکے خلاف زھر انڈیلا جاتا،ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبیﷺ کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی ، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کر کے بے فکر ھو جائیے،ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں،، ان سورتوں کے نزول کے ساتھ ھی نبی ﷺ نے ان کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمعول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہ ؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں، ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا،، ان آیات میں صرف ایک آیت ” و من شر النفثاتِ فی العقد” کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟ اب سب سے پہلے نوٹ کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ” قل اعوذُ برب الفلق” تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ "نبی "اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپﷺ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے کریں گی؟؟ ایک معتزلی شیخ جو کہ اللہ کو بھی معطل مانتا تھا، اس کے پاس ایک شخص آیا کہ میری اونٹنی کوئی چوری کر کے لے گیا ھے تو آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ پاک اسے لوٹا لائے ! اب شیخ نے دعا شروع کی ” ائے اللہ تو نے تو نہیں چاھا تھا کہ اس شخص کی اونٹنی چوری ھو،مگر چور کھول کر لے گیا،، ائے اللہ اس کی اونٹنی لوٹا کر لے آ،اس کی یہ دعا سن کر وہ اونٹ چرانے والا دیہاتی بھی تڑپ اٹھا، اس کے ایمان اور ضمیر نےاللہ کی ھستی بے ھمتا کے بارے میں شیخ کے الفاظ اور ان سے مترشح عقیدے کو قبول نہ کیا وہ پکارا ” یاشیخ الغبی ! اوے بےوقوف مولوی جب چور کا ارادہ پہلے ھی میرے رب کے ارادے کو شکست دے چکا ھے تو اب وہ رب میری اونٹنی کیسے لوٹا سکتا ھے؟ کیا وہ چور کی منت سماجت کر کے واپس لائے گا ؟،، چور نے تو میری اونٹنی چرائی تھی مگر احمق انسان تُو تو میرے ایمان پر ڈاکا ڈالنے لگا ھے؟ 15 سال پڑھنے کے بعد بھی اگر لبید ابن عاصم اللہ کی حفاظت اور نبیﷺ کی عصمت میں نقب لگا چکا ھے تو اب ان سورتوں سے اس شگاف کو کیسے پر کیا جا سکتا ھے ؟ یہ تو سکندر کے گرنے کے بعد پاکستانی پولیس کی ھوائی فائرنگ جیسی بات ھو جائے گی ! کیا ھم پی ایچ ڈی لوگوں سے اس دیہاتی کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی زیادہ نہیں؟ یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبی ﷺ کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا،،تو اب نبی ﷺکو یہ کہنا کہ ” قل اعوذُ برب الفلق’ کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے،یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبیﷺ نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا،بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ جناب معوذتین نام کی دو سورتیں بھی آپ پر 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں،،وہ ڈھونڈیں کدھر رکھی ھوئی ھیں؟ ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبیﷺ پر جادو والی حدیث میں ڈالا،، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں،مگر بعد والوں نے” خالی جگہ پُر کرو” کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا،، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے،، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی ﷺکے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ حضور سوئی نکلنے پر منہ کیسا بناتے ھیں،لکھتے ھیں سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے ،پھر راحت محسوس کرتے ! الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں،، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں،، صرف اس ایک لفظ نفاثات ،، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے،ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں،، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی،،مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ بنا دیتی ھے،، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں،حضرت عائشہ صدیقہؓ کی 16 سال میں شادی اور 19 سال میں رخصتی کی حدیث بھی بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں موجود ھے،مگر 6 سال کے لفظ کے اسیروں کی نظروں میں اس کی اھمیت ھی کوئی نہیں،، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے تو اپنی شرح بخاری میں اس کا ترجمہ تک کرنا پسند نہیں فرمایا کجا یہ کہ اس کی تفسیر سے نبی کے دامن پر لگا دھبہ صاف کرنے کو کوشش کی جاتی، اب دیکھیں ھمارے اسلاف ان الفاظ کا کیا ترجمہ کیا کرتے تھے، اس صورتحال میں کہ جب مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے کام بانٹے ھوئے تھے،کچھ حاجیوں کو گھیرتے اور نبی کی ذات کے بارے میں ان کے کان میں پھونکتے، کچھ تجارتی قافلوں کو نشانہ بناتے اور ان میں گھوم پھر کر اپنے جوھر دکھاتے، کچھ اردگرد کی بستیوں میں چلے جاتے، پھر واپس آنے والے حرم میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں اپنی اپنی کار گزاری سناتے اور ان کے” گرو” ان میں کمی بیشی کی نشاندھی کر کے کل کے لئے نئے اھداف مقرر کرتے اور لائحہ عمل تیار کرتے، اس پس منظر میں ان سورتوں کا نزول ھوا ،، یہ وھی پھونکیں ھیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے پہلے سورہ الصف اور پھر سورہ توبہ میں ذکر فرمایا ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون،،، اور یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم، و یابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون،، یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں کے زور سے بجھانا چاھتے اور اللہ اپنے نور کی تکمیل سے کم کسی بات پر راضی نہیں ھے،، اگرچہ یہ کافرون کو کتنا بھی ناپسند ھو، یہ وھی پھونکیں ھیں جب کو اقبال نے کہا ھے ”
نور خدا ھے کفر کی حرکت پہ خندہ زن – – – پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !
یہ وہ پروپیگنڈے کی پھونکیں ھیں جن کو جادوگرنیوں کی پھونکیں بنا کر پھر جادو کی دیو مالا تیار ھوئی ھے !
اب ترجموں میں نگاہ ڈال لیں،یہ ان اسلاف اور علماء کا ترجمہ ھے جو جادو کی حقیقت سے انکار کرتے ھیں،لہذا وہ گرھوں میں پھونکیں مارنے والی جادوگرنیوں کی بجائے کانوں مین پھونکیں مارنے والی جماعتیں مراد لیتے ھیں
1-قاضی بیضاوی اپنی شرح میں اس کی ترجمانی یوں کرتے ھیں، قیل المراد بالانفث فی العقد ، ابطال عزائم الرجال،، کہا گیا ھے کہ پھونک مارنے والیوں سے مراد وہ عورتیں ھیں جو مردوں کے مستحکم ارادوں کو اپنے حیلوں سے پاش پاش کر دیتی ھیں( ھند زوجہ ابوسفیانؓ اور ام جمیل زوجہ ابو لہب ذھن مین رھے،جو عورتوں میں اس مہم کی سرخیل تھیں )
2- عبدالحق حقانی لکھتے ھیں،پس آیت کے معنی یہ ھوئے کہ عورتوں کے شر سے پناہ مانگنی چاھئے جو مردوں کی ھمتوں اور مستحکم ارادوں کو مکر کی پھونک مار کر کمزور کر دیتی ھیں
3- عبید اللہ سندھی لکھتے ھیں’ اور ھمیں ان جماعتوں کے شر سے بچا جو زھریلی پھونک مار مار کر عقیدے کو کمزور کر دیتی ھیں؛ آگے تفسیر میں لکھتے ھیں کہ کچھ لوگ ان سے مراد کوئی جادو گرنی فرض کر لیتے ھیں جو اپنے جادوگروں سے جادو کراتی ھے اور قرآن میں ان کے شر سے پناہ مانگی جا رھی ھے وغیرہ ،، ان کے نزدیک اس قسم کی تاویل اگرچہ ھو سکتی ھے تا کہ اس کا آیت کے ساتھ تال میل پیدا کیا جائے،مگر اس آیت سے جادوگرنیاں مراد لینا قرآن مجید سے ثابت نہیں ھے اور یہ بات قرآن اور نبوت کی شان کے بھی خلاف ھے،اس لئے ھم عورتوں کی جگہ جماعتوں کو لیتے ھیں اور جماعت کو عربی میں مؤنث کے صیغے میں لیا جاتا ھے، یعنی ان جماعتوں کے شر سے پناہ مانگی جاتی ھے جو اپنے غلط پروپیگنڈے سے انسان کی فطری ترقی کو روکتی ھیں،،( المقام المحمود ص 217 )
4- صوبہ خیبر پختونخواہ کے مشہور عالم شیخ محمد طاھر پنج پیری کہتے ھیں،النفٰثٰتِ فی العقد سے مجالس میں پھونک مارنے والے مراد ھیں، اور اس کی بہترین تفسیر وھی ھے جو خود قرآن نے کی ھے،یریدون لیطفئوا نور اللہ بافوھھم ( الصف-التوبہ) سورہ الفلق میں اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺکو دعا سکھائی ھے کہ جو لوگ نورِ اسلام کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاھتے ھیں آپ ان کے عزائم اور مقصد سے اللہ کی پناہ طلب کریں!
اب ما تتلوا الشیاطین ،، اور النفاثات سے یہ استدلال کرنا کہ چند شیطانی کلمات ِ خبیثہ سے کوئی جادوگر مافوق الفطرت کام یا خلاف عادت کرشمہ سر انجام دے سکتا ھے نیز کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ھے تو یہ ایک باطل اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کے خلاف عقیدہ ھے اور قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کے خلاف کسی بھی روایت کو قبول کرنا سارے سرمایہ دین اور متاعِ ایمان سے ھاتھ دھونا ھے، دنیا میں کوئی ایسا علم اپنا وجود نہیں رکھتا جس میں مجرد چند الفاظ کو لکھ کر کہیں دبا کر کسی کو مافوق الفطرت طریقے سے نفع یا نقصان پہنچایا جا سکے، اگر یہ طاقت دنیا میں جاری و ساری کرنی ھوتی تو اللہ پاک اپنے کلام سے یہ کام لیتا ،،جیسا کہ اس نے خود سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا ھے” ولو انَۜ قرآناً سیرت بہ الجبالُ او قطعت بہ الارضَ او کلم بہ الموتی ،بل للہ الامرُ جمیعاً (الرعد 31 ) اور اگر کوئی ایسا کلام ھوتا جس سے پہاڑ چلائے جا سکتے ،یا زمین پھاڑی جا سکتی( یا فاصلے جھٹ پٹ طے کیئے جا سکتے) یا جس کے ذریعے مردے سے کلام کیا جا سکتا تو وہ یہی قرآن ھوتا،،مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں،، تو جب اللہ نے اپنے کلام میں یہ تاثیر نہیں رکھی بلکہ نبیوں سلام اللہ علیھم اجمعین سمیت تمام لوگوں کو اپنے در کا غلام اور سوالی رکھا ھے تو لبید ابن اعصم نام کے کافر یہودی کے کلام میں یہ تاثیر مان لینا کہ وہ تین میل دور ایک کنوئیں سے اللہ کے محبوب، نبیوں کے امام ،صاحب معراج اور مقام محمود کے مکین ﷺ کے دل و دماغ کو کنٹرول کر رھا تھا،، لبید کافر کو اللہ سے بالاتر اور اس کے کلام کو اللہ کے کلام سے زیادہ پر تاثیراور طاقتور ماننا ھے ( معاذ اللہ،) (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ، انک انت الوھاب)
اب دیکھئے اس سورت الفلق میں ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،نہ کہ خود مخلوق سے،، اور رات کے اندھیرے کے شر سے پناہ مانگی جب وہ چھا جائے،اب نہ تو رات بذات خود کوئی نقصان دہ چیز ھے بلکہ اللہ نے اسے اپنی نشانی گردانا ھے اور نہ اندھیرے میں کوئی نفع نقصان کی صلاحیت ھے،، بلکہ اندھیرے میں حشرات الارض نکل آتے ھیں سانپ بچھو اور درندے وغیرہ جو انسان کے فطری دشمن ھیں ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، نیز رات کی سیاھی کو پردے کے طور پر استعمال کر کے کچھ لوگوں کی سر گوشیوں یعنی منصوبہ بندیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے،، اب گرھوں میں پھونکیں مارنی والییوں کے شر سے پناہ مانگنا ،، نہ تو کسی گرہ میں کوئی شر یا خیر ھوتی ھے اور نہ ھی کسی پھونک میں کوئی خیر اور شر ھوتی ھے،، اصل چیز جو خیر اور شر ھے وہ ان منصوبہ بندیوں اور سرگوشیوں کے مقصد میں ھے ،نبی کریم ﷺ بھی رات کی تاریکی میں ھی دارِ ارقم میں ساتھیوں کے ساتھ ملا کرتے تھے،، یہ خیر کی سرگوشیاں اور خیر کا اجتماع ھوتا تھا،،اسی طرح حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے جب وہ حسد میٹیریلائز کرے حسد کو عمل میں لا کر کوئی وار کرے،،اس وار سے پناہ مانگی گئی ھے،،صرف حسد دل میں رکھنا کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود صاحبِ حسد کے لئے نقصان دہ ھے، ذرا ” اذا حسد ” کی اصطلاح کو غور سے پڑھیں،کیونکہ بنو امیہ میں ابوجہل اور ولید ابن مغیرہ مکمل طور پر حسد کی وجہ حضورﷺ کی رسالت کو نہیں مان رھے تھے کہ اس طرح بنو ھاشم کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی یہانتک کہ آخر کار نبی پاکﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے ،،آگے چل کے یہود مدینہ اسی بیماری کا شکار ھوئے کہ نبی کو اولاد کی طرح پہچانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ھیں،مگر اس حسد میں مبتلا ھوگئے کہ بنو اسماعیل کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی اور نبی ﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے مگر دونوں گروہ اللہ کے وعدے کے مطابق آپ کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں میں ناکام ھو گئے پھر لبیداعصم کیسے کامیاب ھو گیا ؟ سورہ فلق میں تو عقد میں پھونکیں مارنی والیاں ذکر ھیں مگر لبید بن اعصم تو مرد تھا؟ کیا جادو صرف عورتوں سے ھی ھوتا ھے، یہ جادو ھے یا بچہ جو صرف دائیاں پیدا کرتی ھیں ؟ عربوں کی اصطلاحات کو قرآن حکیم نے استعمال فرمایا ھے ،مثلاً حمالۃ الحطب،، لکڑیاں اٹھائے پھرنے والی، یہ ابولہب کی بیوی کی ھجو ھے،کیونکہ یہ اصطلاح چغل خور کے لئے استعمال ھوتی تھی کہ اس کو آگ لگانے کے لئے کسی سے لکڑی مانگنے کی ضرورت نہیں ھوتی، اپنی لکڑیاں خود ساتھ اٹھائے پھرتا ھے،جہاں چاھتا ھے جب چاھتا ھے آگ لگا دیتا ھے،، تو اس کو لکڑیاں اٹھانے والی کہا گیا یعنی چغل خور، اسی طرح عقدہ میں گرہ لگانے کی اصطلاح بھی استعمال ھوتی تھی جیسے ھمارے یہاں مکار عورت کے لئے آسمان ٹاکی لگانے کی اصطلاح استعمال ھوتی ھے، گرہ یا عقدہ اورعقیدہ تو وہ ھوتا ھے کہ جو غیر متحرک ھوتا ھے،ادھر ادھر نہیں ھوتا،جس گرہ کو ڈھیلا رکھنا مقصود ھوتا تھا،عرب اس میں کوئی چیز پھنسا دیتے تھے،مثلاً کوئی چھوٹا سا ڈنڈہ ٹائپ چیز،، ان جماعتوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈنڈے کی جگہ اپنی پھونکیں یعنی اپنے وسوسے استعمال کرتی ھیں عقائد کو ادھر اُدھر کرنے کے لئے،اور یہ بات ھر وہ شخص جانتا ھے جس نے اسلام کے ابتدائی دور میں نبیﷺ کا عکاظ کے میلے میں جانا اور ابولہب کا حضورق کے پیچھے پیچھے رھنا جہاں آپ بات شروع کرتے ابو لہب کہتا کہ میں اس کا تایا ھوں، اس کا دماغ خراب ھو گیا ھے، اس کی بات کا برا نہ منانا اور ساتھ ھی کنکریوں کی مٹھی بھر کر اپ پر پھینکتا کہ محمد گھر چلو،اس پر نئے لوگ ٹھٹھک جاتے، تائے کا معزز حلیہ اور آپ ﷺکا خاموش ھو جانا، دیکھ کر وہ آگے چل دیتے،، اسکی پلاننگ رات کو حرم میں ھی کی جاتی تھی کہ کل میلہ ھے اور کس نے کیا کردار کیسے ادا کرنا ھے،، ابولہب کی تصدیق کے لئے کچھ لوگ بھی ساتھ ساتھ چلتے رھتے تھے