خیال کی زنجیـــــــــــر میں جکـــــــــــــــڑے ھاتھـــــــی
کامران کے والد رائل انڈین ائیر فورس میں کیپٹن تھے جنہیں جب بھی چھٹیاں ملتیں تو وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کولے کر کسی پر فضا مقام کیطرف نکل جاتے،اللہ کا دیا بہت تھا اور وہ اسے اولاد پر خرچ کرنا واجب بھی سمجھتے تھے،خود ھندوستان میں بھی کامران نے کئی دفعہ ھاتھیوں کو جنگلات میں کام کرتے دیکھا تھا،جہاں وہ نہ صرف بڑے بڑے درختوں کو اپنی سونڈ کی گرفت میں لے کر جھٹکے سے نکال لیتے،موٹی موٹی تہنیوں کو توڑ دیتے، بلکہ اپنے پیچھے لادے گئے منوں وزنی درختوں کو بڑے آرام کے ساتھ ادھر سے ادھر گھسیٹ کر لے جاتے دیکھا تھا،،مگر ایک دفعہ جب کہ وہ کینیا میں ایک سیاحتی ریسٹ ھاؤس میں ٹھہرے ھوئے تھے، جس سے تھوڑے ھی فاصلے پر ایک ھاتھی لوھے کی ایک زنجیر کے ساتھ ایک ھلکے سے کھونٹے سے بندھا ھوا تھا ،اور آرام سے چارہ کھا رھا تھا،، کامران کے دماغ میں ایک خیال کوندھے کی طرح لپکا اور پھر وھیں کا ھو کر رہ گیا،،بڑے بڑے درختوں کو اکھاڑ پھینکنے والے اس ھاتھی کو یہ ھلکا سا کھونٹا کھینچ لینے میں دیر ھی کتنی لگے گی؟ اور اس کے بالکل سامنے ھمارا کیبن ھے،سب سے پہلے تو یہ ھم کو ھی نشانہ بنائے گا، ڈر کے مارے ساری رات اس کی آنکھ نہ لگی،وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھتا اور کھڑکی کے پردے کی جھری سے ھاتھی کی حرکات کو بغور دیکھتا کہ وہ غصے میں تو نہیں ! صبح کامران کی حالت نیند اور سر درد کی وجہ سے غیر تھی،والد صاحب نے اسے درد کی دو گولیاں کھلا دیں اور سونے کا کہہ دیا،دوپہر کو کھانے کے لئے جب کامران کو جگایا گیا تو اس نے کھانے کے دوران اپنے ابا سے مطالبہ کر دیا کہ وہ یہاں سے کہیں اور شفٹ ھو جائیں یا واپس ھندوستان چلیں،وہ اب یہاں سو نہیں سکے گا،کامران کے والد چونگ گئے اور پوچھا کیا بات ھے ؟ غالباً تم کل رات کو بھی نہیں سوئے تھے اسی وجہ سےصبح تمہاری یہ حالت ھے ! کامران نے والد کی بات سنی اور کھانا چھوڑ کر ھاتھ دھونے چلا گیا،واپس آ کر اس نے کہا کہ آپ میرے ساتھ تھوڑا کیبن کے باھر تک چلیں گے؟ اکرام صاحب اٹھے اور اپنے بیٹے کے ساتھ باھر کی طرف چل دیئے، باھر نکل کر کامران انہیں سیدھا اس کھونٹے کے پاس لے آیا جس سے رات کو ھاتھی بندھا ھوا تھا، اور کہا ابا جان آپ نے دیکھا ھے ھاتھی دن بھر کتنے درخت ایک جھٹکے سے زمین سے اکھاڑ لیتا ھے اور کتنی موٹی موٹی ٹہنیاں گنے کی طرح توڑ لیتا ھے اگر وہ اس ھلکے سے کھونٹے کو معمولی سا جھٹکا بھی دے تو یہ کھونٹا فوراً باھر نکل آئے گا،پھر یہ ھاتھی اس کیبن اور اس کے مکینوں کا کیا حال کرے گا ؟ کیا اس کے مالکوں کو اس کا احساس نہیں ؟؟ بیٹے کی بات سن کر کیپٹن صاحب اسے لے کر کیبن میں واپس آ گئے اور پھر چائے پیتے ھوئے اس سے گویا ھوئے، دیکھو یہ جتنے کام کرنے والے ھاتھی ھیں وہ ھندوستان میں ھوں یا کینیا یا کسی اور ملک میں،یہ کوئی جنگل سے پکڑ کر کام پر نہیں لگائے گئے،جنگلی ھاتھی سے مرضی کا کام لینا یا اسے کام پر مجبور کرنا ناممکن ھے، یہ شکل و صورت اور قوت میں ھی ھاتھی ھیں، ان کو بچپن میں جبکہ وہ چند دنوں کا ھوتا ھے،پکڑ کر اس کمزور سے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ھے،وہ بہت زور لگاتا ھے، مگر وہ اس کلے کو نہیں اکھاڑ سکتا،اسے تین دن تک نہ تو کھانے کو کچھ دیا جاتا ھے اور نہ پینے کو،، وہ گڑگڑاتا ھے،دردناک آوازیں نکالتا ھے، مجبور ھو کر اپنا پورا زور صرف کر دیتا ھے، اپنے دماغ میں آنے والا ھر آئیڈیا آزماتا ھے مگر یہ کھونٹا اس سے ھلتا تک نہیں ھے،بے بسی کے ان تین دنوں کے دوارن اس بےبس اور کمزور بچے کے دل و دماغ میں یہ خیال انسٹال ھو جاتا ھے کہ یہ کِلہ مجھ سے طاقتور ھے اور اسے توڑنا ناممکن ھے، اس سے صرف میرا مالک ھی میری جان چھڑا سکتا ھے،بس یہ ھاتھی اس دن سے اپنے اس خیال سے بندھا ھوا ھے،یہ اس رسی کو توڑ سکتا ھے مگر خیال کی اس قوی زنجیر کو زندگی بھر نہیں توڑ سکتا جس کے ساتھ وہ حقیقت مین بندھا ھے،جب وہ اس کھونٹے سے باندھا جاتا ھے تو طاقتور ھاتھی کے اندر سے وھی کمزور اور بےبس بچہ نکل کر اس کھونٹے سے بند جاتا ھے، بات کامران کے ذھن میں آگئ اور چھٹیاں گزارنے کے بعد حسب معمول ساری فیملی ھندوستان واپس آگئ،، تھوڑے ھی عرصے بعد برطانیہ نے ھندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ائیر فورس نے اپنے افسروں اور جوانوں کو اختیار دیا کہ وہ پاکستان یا ھندوستان مین سے کسی ملک کی سروس جائن کر سکتے ھیں،، کیپٹن اکرام نے پاکستان کو ترجیح دی اور ایک دن ساری فیملی ائیر فورس کے طیارے میں کراچی منتقل ھو گئ،، اکرام صاحب نے پاک ائیرفورس میں سروس مکمل کی ،انہیں چار کنال پر محیط ایک کوٹھی راولپنڈی میں الاٹ ھوئی اور دو مربعے زمین بہاولپور میں الاٹ ھوئی، کامران اپنے بھائی کے ساتھ تعلیم مکمل کرنے امریکہ چلا گیا جبکہ اکرام نے مزید سروس کے لئے سعودی ائیر فورس جوائن کر لی جہاں ان کی پہلی پوسٹنگ ھی لیفٹینٹ کے طور پر کی گئ،دونوں بیٹوں کی تعلیم مکمل ھوئی ،دونوں کی شادیاں ھو گئیں اور دونوں بیٹے بھی سعودی عرب منتقل ھو گئے، اللہ نے کامران کو دو بیٹوں سے نوازا چونکہ بچوں کی والدہ اور والد دونوں امریکن پاسپورٹ ھولڈر تھے ،دونوں بچوں کو بھی امریکن شہریت مل گئ ،جن میں سے ایک کوانگلش میڈیم اسکول سے او لیول کے بعد ایک دینی مدرسے میں ڈال دیا گیا جب کہ دوسرا اے لیول کے بعد امریکن یونیوسٹی میں انجئیرنگ کے لئے داخل ھو گیا، آٹھ سال کے بعد بڑا بیٹا عالم بن کر گھر آ گیا،جبکہ دوسرا انجینئر بن کر فارغ ھو چکا تھا،، ایک بیٹا جو امریکن یونیورسٹی میں سے فارغ ھو کر آیا ،اسے وھاں کسی امریکن کلاس فیلو سے نبئ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی گھریلو اور ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ ایسا مواد ھاتھ لگا جس پر عقل اور منطق کے لحاظ سے کچھ اعتراضات اٹھتے تھے،جو اس نے بڑے ھلکے انداز مین اپنے بڑے بھائ سے ڈسکس کیئے،کہ آپ عالم بن کر آئے ھو تو ان کا کوئی جواب دو جو میں اس ساتھی کو دے کر مطمئن کروں اور خود بھی مطمئن ھوں، چھوٹے بھائی نے یہ بات نہ تو بدنیتی سے کی تھی نہ وہ اپنے نبی کے بارے میں کوئی شک رکھتا تھا،اسے شک یہ تھا کہ بیان میں غلطی کی گئ ھے،، میرا بھائی مجھ سے بڑا اور زیادہ سمجھدار بھی ھے نیز وہ اس فیلڈ کا عالم بھی ھے تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ھے ! مگر بڑے اور عالم بھائی نے اسے ضرورت سے بھی زیادہ سیریس لے لیا اور والدین کو بتایا کہ چھوٹا بھائی مرتد ھو گیا ھے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتا ھے اور منکرِ حدیث ھو گیا ھے، بات بڑھ گئ بڑے بھائی نے کہا کہ اگر یہ اس گھر میں رھے گا تو پھر میں نہیں رھوں گا،وغیرہ وغیرہ، چھوٹا حیران تھا کہ یہ ایک علمی اور دوستانہ ڈسکشن تھی،اس کو بھائ نے فتوی کیوں بنا کر رکھ دیا ھے؟ کامران اپنے والد سے ملنے گیا جو اس کے سامنے کی سڑک پر اس کے بالمقابل کی بلڈنگ کے ایک فلیٹ مین رھائش پذیر تھے، اور تازہ تازہ ریٹائرڈ ھوئے تھے،ان کی طبیعت ناساز تھی اور یہی سن کر کامران ان کا پتہ کرنے گیا تھا، تجربے کار باپ نے بیٹے کے چہرے پر چھائی پریشان کو بھانپ لیا اور پوچھا کیا مسئلہ ھے ؟ کامران نے ساری صورتحال ان کے گوش گزار کر کے کہا کہ سوچ رھا ھوں کہ کراچی کسی بڑی جامعہ میں چھوٹے کو لے جاؤں، شاید وہ اس کو مطمئن کر دیں ! کیپٹن اکرام مسکرائے اور بولے ،وہ مسئلے کا جزو ھیں، مسئلے کا حل نہیں(دے آر پارٹ آف پرابلم اینڈ ناٹ سلیوشن آف پرابلم) تمہیں یاد ھے کینیا کی وہ رات جب تم ھاتھی کے ڈر سے ساری رات نہیں سوئے تھے کہ وہ کمزور سا کھونٹا توڑ کر ھمارے کیبن کو روند ڈالے گا ؟ میں نے تمہیں کیا بتایا تھا؟ وھی واردات ان علماء کے ساتھ ھوئی ھے،ان کو بچپن میں سارا زور لگوا کر اس خیال کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا ھے کہ راوی کا کھونٹا اتنا قوی ھے کہ اس کو کوئی مائی کا لعل نہیں ھلا سکتا،، ان کے القابات اور ڈیل ڈول مت دیکھو،، ان کے جج ھونے اور مفتی ھونے کو مت دیکھو، یہ جب بھی راوی دیکھتے ھیں تو ان کے اندر کا بچہ نکل کر راوی کے کھونٹے سے بندھ جاتا ھے ، یہ لوگ خیال کی زنجیر سے بندھے ھیں،علم ان کا کچھ نہیں بگاڑتا، یہ راوی کے زور پر قرآن میں تبدیلی کر سکتے ھیں،موجود کو معطل کر سکتے ھیں ناموجد کو موجود کر سکتے ھیں، نبییوں کے بارے میں یہود سے بھی بڑھ کر گند بیان کر سکتے ھیں،صحابہ کو معاذ اللہ مرتد قرار دے سکتے ھیں،ملک کے کروڑوں شہریوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے سکتے ھیں،ریاست کے خلاف خروج کو جہاد قرار دے سکتے ھیں ،، نہیں کر سکتے تو صرف راوی کو” نہ "نہیں کر سکتے کیونکہ راوی کا کلہ قرآن سے بھی مضبوط ھے،، قرآن تو ویسے بھی مدارس میں بارھواں کھلاڑی ھے،جو آخر میں صرف پکی پکائی کو دم دینے کے لئے استعمال ھوتا ھے، مجھے نہیں لگتا کہ چھوٹے کوبات سمجھنے میں ان سے کوئ مدد مل سکتی ھے،بلکہ مجھے خدشہ یہ ھے کہ وہ اس کو مایوس کر کے ارتداد کے رستے پر ڈال دیں گے،اس کے لئے جنگل کا اصلی ھاتھی چاھئے،جسے کھونٹے پہ زور نہ لگوایا گیا ھو،اور وہ ھر معاملے کو راوی کی بجائے قرآن حکیم کی نظر سے دیکھ سکتا ھو،،
اس زمانے میں نیٹ ابھی عام نہیں تھا، اور پاکستان میں تو اس کا تصور تک نہیں تھا،کامران نے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لیا اور عازمِ پاکستان ھوا،پاکستان میں اس کی ملاقات ایک عالم سے ھوئی،جس نے دونوں باپ بیٹے کو دو دن اپنے یہاں رکھا اور بہت مدلل انداز میں بات سمجھائی، الحمد للہ وہ لڑکا آج بھی ایک باعمل مسلمان ھے اس عالم کے کہے کو مختصر کر کے بیان کیا جائے تو کچھ یوں ھے
تبلیغِ شریعت نبیﷺ کی ذمہ داری تھی،اور دین چونکہ عامۃ الناس کی امانت ھے لہذا تبلیغ میں عموم کا اعتبار ھے،یعنی جو بات دین یا شریعت سے متعلق ھو گی وہ لازماً نبیﷺ نے مجمع عام میں بیان کی ھو گی،کسی خاص بندے سے کی گئی بات ترغیب و ترھیب تو ھو سکتی ھے یا اس متعلقہ راوی کی کسی نفسیاتی گرہ کو سامنے رکھ کر اس کو کی گئ نصیحت تو ھو سکتی ھےمگر وہ شریعت نہیں ھو سکتی، جو صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے ،انہوں نے نبیﷺ کے ساتھ اپنی پرائیویٹ گفتگو کبھی لوگوں سے شیئر ھی نہیں کی،یہی وجہ ھے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو نبیﷺ کے ساتھ کئی دن غار میں رھےاور ایک ماہ کے لگ بھگ سفر ھجرت میں ساتھ رھے،اور اس سارے عرصے کی گفتگو کا ایک لفظ امت سے بیان نہیں کیا،،کیا اس سارے عرصے میں نبیﷺ نے اپنے ساتھی سے کوئی بات نہیں کی تھی ؟ اس کے علاوہ ایمان لانے کے بعد دن رات نبیﷺ کے ساتھ سایہ بن کر رھنے والی ھستی اگر پچاس حدیثیں بیان کرتی ھے تو اسی سے ثابت ھو جاتا ھے کہ تبلیغ کی اصل قرآن ھے جو نبیﷺ کی دعوت اور انذار اور تبشیر کا اصلی نصاب ھے،نیز یہی حال عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا ھے کہ ان سے بھی پجاس سے بھی کم روایات مروی ھیں ،، اس کے علاوہ اگلا اصول جسے سب سے پہلے خلیفہ اول نے اپنایا اور میراث کے معاملے میں مغیرہ ابن شعبہ کو حدیث بیان کرنے پر دوسرا گواہ لانے کو کہا،،جبکہ یہی اصول خلیفہ ثانی نے مسئلہ استیئذان میں ابو موسی الاشعری کے ساتھ اپنایا کہ انہیں دھمکی دی کہ دوسرا گواہ پیش کرو ورنہ تم پر جھوٹ کی سزا نافذ کروں گا۔۔، اگر اسی اصول کو اپنایا جاتا اور ھر صحابیؓ سے اپنی بات کی صداقت کے لئے دوسرا صحابی مانگا جاتا ، پھر جب صحابی کی بات دوسرے صحابی کی گواھی پر قبول کی جائے گی ،تو تابعی کی حدیث بھی دوسرے تابعی کی گواھی سے ھی قبول کی جائے گی کیونکہ صحابی ان سے عادل تھے اور عادل اکیلے کی حدیث خلفاء نے قبول نہیں کی ،تو تابع اکیلے کی کیسے قبول کی جا سکتی ھے، اور اسی طرح تبع تابعی بھی ثقہ تبع تابعی کی گواھی لائے گا، تو حدیثوں کی تعداد بھی کم ھوتی اور جو ھوتیں وہ شریعت سے متعلق ھوتیں،، جونہی خلافت کی گرفت کمزور ھوئی،اور ابوبکرؓ و عمرؓ کی اختیار کردہ پالیسی کو نرم کیا گیا،، احادیث کا سیلاب آ گیا،، حضرت ابوھریرہؓ کے یہاں ھی رش نہیں ٹوٹتا تھا،جبکہ پہلے دو خلفاء کے زمانے میں یہی ابوھریرہؓ دائیں بائیں دیکھ کر حدیث سنایا کرتے تھے کیونکہ انہیں عمر فاروقؓ نے دھمکی دی ھوئی تھی کہ اگر آپ نے یہ مجمع لگانے کا سلسلہ بند نہ کیا تو ایک تو اپ کو سزا دی جائے گی، دوسرا آپ کو مدینہ بدر کر دیا جائےگا ، عثمانؓ کی پالیسی کی نرمی نے وہ ستم ڈھایا کہ خود ان کے زمانے میں وہ احادیث وجود پا گئیں جو خود ان کے خلاف بغاوت کا سبب بن گئیں،، جس قدر تضاد ان احادیث میں نبیﷺ کی زندگی کے بارے میں پایا جاتا ھے وہ تو عام آدمی کی زندگی میں بھی پایا جائے تو انسان مشکوک ھو جاتا ھے ، جیسی جیسی باتیں نبیﷺ سے منسوب ھیں ، ان پہ تو نہ راویوں نے عمل کرنا مناسب سمجھا نہ آج ان کو پڑھانے والے عمل کرنا گورا کرتے ھیں،، نبیﷺ اور آپ کے گھرانے (سلام اللہ علیہم اجمعین) والوں کے لئے اللہ پاک نے قرآن میں ایک خاص اسول بیان فرمایا ھے جو سورہ نور میں واقعہ افک کے بعد بنایا گیا،سب سے پہلے تو چار گواھوں کا مطالبہ کیا گیا جو کہ عام مسلمانوں کے لئے ایک شرط ھے،مگر پھر اس کے بعد فرمایا کہ جب بات نبی اور ان کے گھر والوں کی آئے تو راوی اور ان کی ثقاھت سرے سے کوئی اھمیت نہیں رکھتی،، ان سے منسوب کسی بھی برائی کے لئے ایک ھی کلمہ امت کو سکھایا گیا جو جواباً کہنا ھے ” سبحانک ھذا بہتان عظیم ” نہ کہ رایوں کی تحقیق شروع کی جائے، یہ وہ اصول تھا جسے محدثین نے نظر انداز کیا اور امت کو فتنے میں مبتلا کر کے رکھ دیا،احادیث پر نظرثانی ھونی چاھئے،جس کے لئے نئے اصول وضع کیئے جائیں اور دو خلفاء ابوبکرؓ و عمرؓ کا اختیار کردہ اصول اپنایا جائے،
ٓ وھی حدیث شریعت قرار دی جائے جسے مجمع عام کے سامنے بطورِ شریعت بیان کیا گیا ھو
ٓ وھی حدیث قبول کی جائے جس میں دوسرا صحابی راوی کی گواھی دے
ٓ وہ احادیث مکمل طور پر رد کی جائیں جن مین نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی سے ایسے عمل کو منسوب کیا گیا ھو جسے عام آدمی کا ضمیر بھی کرنے سے حیاء کرے،
ٓ ایسی حدیث کو قطعی رد کر دیا جائے جو قرآن کے خلاف ھوں، اور قرآن کے خلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے خود قرآن کو تختہ مشق نہ بنایا جائے اور نہ اس کی تاویلیں کر کے حدیث کے سامنے جھکایا جائے ،بلکہ حدیث کو ھی مندرجہ بالا اصولوں پر چیک کیا جائے،،
ٓ اگر علماء اس ذمہ داری سے کوتاھی برتتے ھیں، تو عوام الناس کا ضمیر جس حدیث کا بوجھ نہیں اٹھاتا ، اور وہ سمجھتے ھیں کہ ان کے نبیﷺ اس کردار کے حامل نہیں ھو سکتے تو وہ ان احادیث کو ایک لمحہ بھی برداشت نہ کریں اور اسے رد کر دیں،، اس لئے کہ دین کی تبلیغ میں مصطفیﷺ کا کردار ایک جوھری حیثیت رکھتا ھے، ان کو عیب دار کر کے،ان کے امیج کو نقصان پہنچا کر کھبی بھی دین کی تبلیغ یا ترویج نہیں کی جا سکتی،، بلکہ آج کے نوجوان کو زیادہ دیر اسلام میں روک کر رکھنا بھی ایک مسئلہ بن جائے گا،،آنے والے چند سال ایک بہت بڑا طوفان لے کر آنے والے ھیں،،
کامران کے والد رائل انڈین ائیر فورس میں کیپٹن تھے جنہیں جب بھی چھٹیاں ملتیں تو وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کولے کر کسی پر فضا مقام کیطرف نکل جاتے،اللہ کا دیا بہت تھا اور وہ اسے اولاد پر خرچ کرنا واجب بھی سمجھتے تھے،خود ھندوستان میں بھی کامران نے کئی دفعہ ھاتھیوں کو جنگلات میں کام کرتے دیکھا تھا،جہاں وہ نہ صرف بڑے بڑے درختوں کو اپنی سونڈ کی گرفت میں لے کر جھٹکے سے نکال لیتے،موٹی موٹی تہنیوں کو توڑ دیتے، بلکہ اپنے پیچھے لادے گئے منوں وزنی درختوں کو بڑے آرام کے ساتھ ادھر سے ادھر گھسیٹ کر لے جاتے دیکھا تھا،،مگر ایک دفعہ جب کہ وہ کینیا میں ایک سیاحتی ریسٹ ھاؤس میں ٹھہرے ھوئے تھے، جس سے تھوڑے ھی فاصلے پر ایک ھاتھی لوھے کی ایک زنجیر کے ساتھ ایک ھلکے سے کھونٹے سے بندھا ھوا تھا ،اور آرام سے چارہ کھا رھا تھا،، کامران کے دماغ میں ایک خیال کوندھے کی طرح لپکا اور پھر وھیں کا ھو کر رہ گیا،،بڑے بڑے درختوں کو اکھاڑ پھینکنے والے اس ھاتھی کو یہ ھلکا سا کھونٹا کھینچ لینے میں دیر ھی کتنی لگے گی؟ اور اس کے بالکل سامنے ھمارا کیبن ھے،سب سے پہلے تو یہ ھم کو ھی نشانہ بنائے گا، ڈر کے مارے ساری رات اس کی آنکھ نہ لگی،وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھتا اور کھڑکی کے پردے کی جھری سے ھاتھی کی حرکات کو بغور دیکھتا کہ وہ غصے میں تو نہیں ! صبح کامران کی حالت نیند اور سر درد کی وجہ سے غیر تھی،والد صاحب نے اسے درد کی دو گولیاں کھلا دیں اور سونے کا کہہ دیا،دوپہر کو کھانے کے لئے جب کامران کو جگایا گیا تو اس نے کھانے کے دوران اپنے ابا سے مطالبہ کر دیا کہ وہ یہاں سے کہیں اور شفٹ ھو جائیں یا واپس ھندوستان چلیں،وہ اب یہاں سو نہیں سکے گا،کامران کے والد چونگ گئے اور پوچھا کیا بات ھے ؟ غالباً تم کل رات کو بھی نہیں سوئے تھے اسی وجہ سےصبح تمہاری یہ حالت ھے ! کامران نے والد کی بات سنی اور کھانا چھوڑ کر ھاتھ دھونے چلا گیا،واپس آ کر اس نے کہا کہ آپ میرے ساتھ تھوڑا کیبن کے باھر تک چلیں گے؟ اکرام صاحب اٹھے اور اپنے بیٹے کے ساتھ باھر کی طرف چل دیئے، باھر نکل کر کامران انہیں سیدھا اس کھونٹے کے پاس لے آیا جس سے رات کو ھاتھی بندھا ھوا تھا، اور کہا ابا جان آپ نے دیکھا ھے ھاتھی دن بھر کتنے درخت ایک جھٹکے سے زمین سے اکھاڑ لیتا ھے اور کتنی موٹی موٹی ٹہنیاں گنے کی طرح توڑ لیتا ھے اگر وہ اس ھلکے سے کھونٹے کو معمولی سا جھٹکا بھی دے تو یہ کھونٹا فوراً باھر نکل آئے گا،پھر یہ ھاتھی اس کیبن اور اس کے مکینوں کا کیا حال کرے گا ؟ کیا اس کے مالکوں کو اس کا احساس نہیں ؟؟ بیٹے کی بات سن کر کیپٹن صاحب اسے لے کر کیبن میں واپس آ گئے اور پھر چائے پیتے ھوئے اس سے گویا ھوئے، دیکھو یہ جتنے کام کرنے والے ھاتھی ھیں وہ ھندوستان میں ھوں یا کینیا یا کسی اور ملک میں،یہ کوئی جنگل سے پکڑ کر کام پر نہیں لگائے گئے،جنگلی ھاتھی سے مرضی کا کام لینا یا اسے کام پر مجبور کرنا ناممکن ھے، یہ شکل و صورت اور قوت میں ھی ھاتھی ھیں، ان کو بچپن میں جبکہ وہ چند دنوں کا ھوتا ھے،پکڑ کر اس کمزور سے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ھے،وہ بہت زور لگاتا ھے، مگر وہ اس کلے کو نہیں اکھاڑ سکتا،اسے تین دن تک نہ تو کھانے کو کچھ دیا جاتا ھے اور نہ پینے کو،، وہ گڑگڑاتا ھے،دردناک آوازیں نکالتا ھے، مجبور ھو کر اپنا پورا زور صرف کر دیتا ھے، اپنے دماغ میں آنے والا ھر آئیڈیا آزماتا ھے مگر یہ کھونٹا اس سے ھلتا تک نہیں ھے،بے بسی کے ان تین دنوں کے دوارن اس بےبس اور کمزور بچے کے دل و دماغ میں یہ خیال انسٹال ھو جاتا ھے کہ یہ کِلہ مجھ سے طاقتور ھے اور اسے توڑنا ناممکن ھے، اس سے صرف میرا مالک ھی میری جان چھڑا سکتا ھے،بس یہ ھاتھی اس دن سے اپنے اس خیال سے بندھا ھوا ھے،یہ اس رسی کو توڑ سکتا ھے مگر خیال کی اس قوی زنجیر کو زندگی بھر نہیں توڑ سکتا جس کے ساتھ وہ حقیقت مین بندھا ھے،جب وہ اس کھونٹے سے باندھا جاتا ھے تو طاقتور ھاتھی کے اندر سے وھی کمزور اور بےبس بچہ نکل کر اس کھونٹے سے بند جاتا ھے، بات کامران کے ذھن میں آگئ اور چھٹیاں گزارنے کے بعد حسب معمول ساری فیملی ھندوستان واپس آگئ،، تھوڑے ھی عرصے بعد برطانیہ نے ھندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ائیر فورس نے اپنے افسروں اور جوانوں کو اختیار دیا کہ وہ پاکستان یا ھندوستان مین سے کسی ملک کی سروس جائن کر سکتے ھیں،، کیپٹن اکرام نے پاکستان کو ترجیح دی اور ایک دن ساری فیملی ائیر فورس کے طیارے میں کراچی منتقل ھو گئ،، اکرام صاحب نے پاک ائیرفورس میں سروس مکمل کی ،انہیں چار کنال پر محیط ایک کوٹھی راولپنڈی میں الاٹ ھوئی اور دو مربعے زمین بہاولپور میں الاٹ ھوئی، کامران اپنے بھائی کے ساتھ تعلیم مکمل کرنے امریکہ چلا گیا جبکہ اکرام نے مزید سروس کے لئے سعودی ائیر فورس جوائن کر لی جہاں ان کی پہلی پوسٹنگ ھی لیفٹینٹ کے طور پر کی گئ،دونوں بیٹوں کی تعلیم مکمل ھوئی ،دونوں کی شادیاں ھو گئیں اور دونوں بیٹے بھی سعودی عرب منتقل ھو گئے، اللہ نے کامران کو دو بیٹوں سے نوازا چونکہ بچوں کی والدہ اور والد دونوں امریکن پاسپورٹ ھولڈر تھے ،دونوں بچوں کو بھی امریکن شہریت مل گئ ،جن میں سے ایک کوانگلش میڈیم اسکول سے او لیول کے بعد ایک دینی مدرسے میں ڈال دیا گیا جب کہ دوسرا اے لیول کے بعد امریکن یونیوسٹی میں انجئیرنگ کے لئے داخل ھو گیا، آٹھ سال کے بعد بڑا بیٹا عالم بن کر گھر آ گیا،جبکہ دوسرا انجینئر بن کر فارغ ھو چکا تھا،، ایک بیٹا جو امریکن یونیورسٹی میں سے فارغ ھو کر آیا ،اسے وھاں کسی امریکن کلاس فیلو سے نبئ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی گھریلو اور ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ ایسا مواد ھاتھ لگا جس پر عقل اور منطق کے لحاظ سے کچھ اعتراضات اٹھتے تھے،جو اس نے بڑے ھلکے انداز مین اپنے بڑے بھائ سے ڈسکس کیئے،کہ آپ عالم بن کر آئے ھو تو ان کا کوئی جواب دو جو میں اس ساتھی کو دے کر مطمئن کروں اور خود بھی مطمئن ھوں، چھوٹے بھائی نے یہ بات نہ تو بدنیتی سے کی تھی نہ وہ اپنے نبی کے بارے میں کوئی شک رکھتا تھا،اسے شک یہ تھا کہ بیان میں غلطی کی گئ ھے،، میرا بھائی مجھ سے بڑا اور زیادہ سمجھدار بھی ھے نیز وہ اس فیلڈ کا عالم بھی ھے تو یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ھے ! مگر بڑے اور عالم بھائی نے اسے ضرورت سے بھی زیادہ سیریس لے لیا اور والدین کو بتایا کہ چھوٹا بھائی مرتد ھو گیا ھے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتا ھے اور منکرِ حدیث ھو گیا ھے، بات بڑھ گئ بڑے بھائی نے کہا کہ اگر یہ اس گھر میں رھے گا تو پھر میں نہیں رھوں گا،وغیرہ وغیرہ، چھوٹا حیران تھا کہ یہ ایک علمی اور دوستانہ ڈسکشن تھی،اس کو بھائ نے فتوی کیوں بنا کر رکھ دیا ھے؟ کامران اپنے والد سے ملنے گیا جو اس کے سامنے کی سڑک پر اس کے بالمقابل کی بلڈنگ کے ایک فلیٹ مین رھائش پذیر تھے، اور تازہ تازہ ریٹائرڈ ھوئے تھے،ان کی طبیعت ناساز تھی اور یہی سن کر کامران ان کا پتہ کرنے گیا تھا، تجربے کار باپ نے بیٹے کے چہرے پر چھائی پریشان کو بھانپ لیا اور پوچھا کیا مسئلہ ھے ؟ کامران نے ساری صورتحال ان کے گوش گزار کر کے کہا کہ سوچ رھا ھوں کہ کراچی کسی بڑی جامعہ میں چھوٹے کو لے جاؤں، شاید وہ اس کو مطمئن کر دیں ! کیپٹن اکرام مسکرائے اور بولے ،وہ مسئلے کا جزو ھیں، مسئلے کا حل نہیں(دے آر پارٹ آف پرابلم اینڈ ناٹ سلیوشن آف پرابلم) تمہیں یاد ھے کینیا کی وہ رات جب تم ھاتھی کے ڈر سے ساری رات نہیں سوئے تھے کہ وہ کمزور سا کھونٹا توڑ کر ھمارے کیبن کو روند ڈالے گا ؟ میں نے تمہیں کیا بتایا تھا؟ وھی واردات ان علماء کے ساتھ ھوئی ھے،ان کو بچپن میں سارا زور لگوا کر اس خیال کے کھونٹے سے باندھ دیا گیا ھے کہ راوی کا کھونٹا اتنا قوی ھے کہ اس کو کوئی مائی کا لعل نہیں ھلا سکتا،، ان کے القابات اور ڈیل ڈول مت دیکھو،، ان کے جج ھونے اور مفتی ھونے کو مت دیکھو، یہ جب بھی راوی دیکھتے ھیں تو ان کے اندر کا بچہ نکل کر راوی کے کھونٹے سے بندھ جاتا ھے ، یہ لوگ خیال کی زنجیر سے بندھے ھیں،علم ان کا کچھ نہیں بگاڑتا، یہ راوی کے زور پر قرآن میں تبدیلی کر سکتے ھیں،موجود کو معطل کر سکتے ھیں ناموجد کو موجود کر سکتے ھیں، نبییوں کے بارے میں یہود سے بھی بڑھ کر گند بیان کر سکتے ھیں،صحابہ کو معاذ اللہ مرتد قرار دے سکتے ھیں،ملک کے کروڑوں شہریوں کو کافر اور واجب القتل قرار دے سکتے ھیں،ریاست کے خلاف خروج کو جہاد قرار دے سکتے ھیں ،، نہیں کر سکتے تو صرف راوی کو” نہ "نہیں کر سکتے کیونکہ راوی کا کلہ قرآن سے بھی مضبوط ھے،، قرآن تو ویسے بھی مدارس میں بارھواں کھلاڑی ھے،جو آخر میں صرف پکی پکائی کو دم دینے کے لئے استعمال ھوتا ھے، مجھے نہیں لگتا کہ چھوٹے کوبات سمجھنے میں ان سے کوئ مدد مل سکتی ھے،بلکہ مجھے خدشہ یہ ھے کہ وہ اس کو مایوس کر کے ارتداد کے رستے پر ڈال دیں گے،اس کے لئے جنگل کا اصلی ھاتھی چاھئے،جسے کھونٹے پہ زور نہ لگوایا گیا ھو،اور وہ ھر معاملے کو راوی کی بجائے قرآن حکیم کی نظر سے دیکھ سکتا ھو،،
اس زمانے میں نیٹ ابھی عام نہیں تھا، اور پاکستان میں تو اس کا تصور تک نہیں تھا،کامران نے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لیا اور عازمِ پاکستان ھوا،پاکستان میں اس کی ملاقات ایک عالم سے ھوئی،جس نے دونوں باپ بیٹے کو دو دن اپنے یہاں رکھا اور بہت مدلل انداز میں بات سمجھائی، الحمد للہ وہ لڑکا آج بھی ایک باعمل مسلمان ھے اس عالم کے کہے کو مختصر کر کے بیان کیا جائے تو کچھ یوں ھے
تبلیغِ شریعت نبیﷺ کی ذمہ داری تھی،اور دین چونکہ عامۃ الناس کی امانت ھے لہذا تبلیغ میں عموم کا اعتبار ھے،یعنی جو بات دین یا شریعت سے متعلق ھو گی وہ لازماً نبیﷺ نے مجمع عام میں بیان کی ھو گی،کسی خاص بندے سے کی گئی بات ترغیب و ترھیب تو ھو سکتی ھے یا اس متعلقہ راوی کی کسی نفسیاتی گرہ کو سامنے رکھ کر اس کو کی گئ نصیحت تو ھو سکتی ھےمگر وہ شریعت نہیں ھو سکتی، جو صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے ،انہوں نے نبیﷺ کے ساتھ اپنی پرائیویٹ گفتگو کبھی لوگوں سے شیئر ھی نہیں کی،یہی وجہ ھے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو نبیﷺ کے ساتھ کئی دن غار میں رھےاور ایک ماہ کے لگ بھگ سفر ھجرت میں ساتھ رھے،اور اس سارے عرصے کی گفتگو کا ایک لفظ امت سے بیان نہیں کیا،،کیا اس سارے عرصے میں نبیﷺ نے اپنے ساتھی سے کوئی بات نہیں کی تھی ؟ اس کے علاوہ ایمان لانے کے بعد دن رات نبیﷺ کے ساتھ سایہ بن کر رھنے والی ھستی اگر پچاس حدیثیں بیان کرتی ھے تو اسی سے ثابت ھو جاتا ھے کہ تبلیغ کی اصل قرآن ھے جو نبیﷺ کی دعوت اور انذار اور تبشیر کا اصلی نصاب ھے،نیز یہی حال عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا ھے کہ ان سے بھی پجاس سے بھی کم روایات مروی ھیں ،، اس کے علاوہ اگلا اصول جسے سب سے پہلے خلیفہ اول نے اپنایا اور میراث کے معاملے میں مغیرہ ابن شعبہ کو حدیث بیان کرنے پر دوسرا گواہ لانے کو کہا،،جبکہ یہی اصول خلیفہ ثانی نے مسئلہ استیئذان میں ابو موسی الاشعری کے ساتھ اپنایا کہ انہیں دھمکی دی کہ دوسرا گواہ پیش کرو ورنہ تم پر جھوٹ کی سزا نافذ کروں گا۔۔، اگر اسی اصول کو اپنایا جاتا اور ھر صحابیؓ سے اپنی بات کی صداقت کے لئے دوسرا صحابی مانگا جاتا ، پھر جب صحابی کی بات دوسرے صحابی کی گواھی پر قبول کی جائے گی ،تو تابعی کی حدیث بھی دوسرے تابعی کی گواھی سے ھی قبول کی جائے گی کیونکہ صحابی ان سے عادل تھے اور عادل اکیلے کی حدیث خلفاء نے قبول نہیں کی ،تو تابع اکیلے کی کیسے قبول کی جا سکتی ھے، اور اسی طرح تبع تابعی بھی ثقہ تبع تابعی کی گواھی لائے گا، تو حدیثوں کی تعداد بھی کم ھوتی اور جو ھوتیں وہ شریعت سے متعلق ھوتیں،، جونہی خلافت کی گرفت کمزور ھوئی،اور ابوبکرؓ و عمرؓ کی اختیار کردہ پالیسی کو نرم کیا گیا،، احادیث کا سیلاب آ گیا،، حضرت ابوھریرہؓ کے یہاں ھی رش نہیں ٹوٹتا تھا،جبکہ پہلے دو خلفاء کے زمانے میں یہی ابوھریرہؓ دائیں بائیں دیکھ کر حدیث سنایا کرتے تھے کیونکہ انہیں عمر فاروقؓ نے دھمکی دی ھوئی تھی کہ اگر آپ نے یہ مجمع لگانے کا سلسلہ بند نہ کیا تو ایک تو اپ کو سزا دی جائے گی، دوسرا آپ کو مدینہ بدر کر دیا جائےگا ، عثمانؓ کی پالیسی کی نرمی نے وہ ستم ڈھایا کہ خود ان کے زمانے میں وہ احادیث وجود پا گئیں جو خود ان کے خلاف بغاوت کا سبب بن گئیں،، جس قدر تضاد ان احادیث میں نبیﷺ کی زندگی کے بارے میں پایا جاتا ھے وہ تو عام آدمی کی زندگی میں بھی پایا جائے تو انسان مشکوک ھو جاتا ھے ، جیسی جیسی باتیں نبیﷺ سے منسوب ھیں ، ان پہ تو نہ راویوں نے عمل کرنا مناسب سمجھا نہ آج ان کو پڑھانے والے عمل کرنا گورا کرتے ھیں،، نبیﷺ اور آپ کے گھرانے (سلام اللہ علیہم اجمعین) والوں کے لئے اللہ پاک نے قرآن میں ایک خاص اسول بیان فرمایا ھے جو سورہ نور میں واقعہ افک کے بعد بنایا گیا،سب سے پہلے تو چار گواھوں کا مطالبہ کیا گیا جو کہ عام مسلمانوں کے لئے ایک شرط ھے،مگر پھر اس کے بعد فرمایا کہ جب بات نبی اور ان کے گھر والوں کی آئے تو راوی اور ان کی ثقاھت سرے سے کوئی اھمیت نہیں رکھتی،، ان سے منسوب کسی بھی برائی کے لئے ایک ھی کلمہ امت کو سکھایا گیا جو جواباً کہنا ھے ” سبحانک ھذا بہتان عظیم ” نہ کہ رایوں کی تحقیق شروع کی جائے، یہ وہ اصول تھا جسے محدثین نے نظر انداز کیا اور امت کو فتنے میں مبتلا کر کے رکھ دیا،احادیث پر نظرثانی ھونی چاھئے،جس کے لئے نئے اصول وضع کیئے جائیں اور دو خلفاء ابوبکرؓ و عمرؓ کا اختیار کردہ اصول اپنایا جائے،
ٓ وھی حدیث شریعت قرار دی جائے جسے مجمع عام کے سامنے بطورِ شریعت بیان کیا گیا ھو
ٓ وھی حدیث قبول کی جائے جس میں دوسرا صحابی راوی کی گواھی دے
ٓ وہ احادیث مکمل طور پر رد کی جائیں جن مین نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی سے ایسے عمل کو منسوب کیا گیا ھو جسے عام آدمی کا ضمیر بھی کرنے سے حیاء کرے،
ٓ ایسی حدیث کو قطعی رد کر دیا جائے جو قرآن کے خلاف ھوں، اور قرآن کے خلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے خود قرآن کو تختہ مشق نہ بنایا جائے اور نہ اس کی تاویلیں کر کے حدیث کے سامنے جھکایا جائے ،بلکہ حدیث کو ھی مندرجہ بالا اصولوں پر چیک کیا جائے،،
ٓ اگر علماء اس ذمہ داری سے کوتاھی برتتے ھیں، تو عوام الناس کا ضمیر جس حدیث کا بوجھ نہیں اٹھاتا ، اور وہ سمجھتے ھیں کہ ان کے نبیﷺ اس کردار کے حامل نہیں ھو سکتے تو وہ ان احادیث کو ایک لمحہ بھی برداشت نہ کریں اور اسے رد کر دیں،، اس لئے کہ دین کی تبلیغ میں مصطفیﷺ کا کردار ایک جوھری حیثیت رکھتا ھے، ان کو عیب دار کر کے،ان کے امیج کو نقصان پہنچا کر کھبی بھی دین کی تبلیغ یا ترویج نہیں کی جا سکتی،، بلکہ آج کے نوجوان کو زیادہ دیر اسلام میں روک کر رکھنا بھی ایک مسئلہ بن جائے گا،،آنے والے چند سال ایک بہت بڑا طوفان لے کر آنے والے ھیں،،