2006 کا سال تھا ،ابوظہبی ائیرپورٹ پہ وزن کراتے ھوئے ساتھ والے کاؤنٹر پہ مسلسل بحث چل رھی تھی کہ سامان زیادہ ھے جبکہ سامان کا مالک جو شکل و صورت سے انتہائی متدین لگتا تھا ، نیز چہرے پہ سادگی تہہ در تہہ چڑھی ھوئی تھی وہ اصرار کر رھا تھا کہ سامان پورا ھے، میں گھر سے وزن کر کے چلا تھا ،تمہارا میزان خراب ھے ،، بابا جی کے پیچھے مسافروں کی لائن لگی ھوئی تھی اور ان میں بےچینی تھی کہ بڑھتی چلی جا رھی تھی ،، جب دونوں اپنے اپنے موقف پہ ڈٹے رھے اور ائیرلائن والوں نے اپنے قلی کو بلا کر سامان اتار کر سائڈ پہ رکھنے کا حکم دے دیا تو میں بابا جی کو ایک سائڈ پہ لے گیا،، حضرت آپ مجھے سچے لگتے ھیں ،، اور ائیرپورٹ والوں کا کنڈہ بھی درست لگتا ھے ، پھر گڑ بڑ کہیں اور ھے ،،
آپ نے جس کنڈے پر گھر میں سامان تولا تھا وہ کونسا کنڈہ تھا ،، ؟
بابا جی نے جواب دیا کہ ھاتھ سے پکڑ کر لٹکانے والا ،، میں نے عرض کیا کہ وہ کنڈے دو قسم کے ھوتے ھیں ، ایک 100 کلوگرام والا ،، دوسرا 50 کلوگرام والا ،،،،،،، آپ یہ بتایئے کہ آپ کا کنڈہ کتنے کلوگرام کا تھا ؟ وہ بولے کہ مجھے پتہ نہیں بھانجےسے فون کر کے پتہ کرتا ھوں ، فون کیا تو بھانجے نے کنڈہ چیک کر کے بتایا کہ 50 کلو گرام والا کنڈہ ھے ،، میں نے عرض کیا کہ بابا آپ 50 کلو گرام والے کنڈے پہ 100 کلو وزن کرو گے تو بھی وہ 50 کلوگرام ھی دکھائے گا ،کیونکہ اس کی سوئی تو اس سے آگے جا ھی نہیں سکتی،، بات بابا جی کی سمجھ میں لگ گئ 5 کلوگرام کے انہوں نے پیسے جمع کرا دیئے اور مسئلہ حل ھو گیا ،،،
اب ظاھر ھے جن حضرات کے عقل و فھم کے میزان کی حد ھی 50 کلو گرام ھے قاری حنیف خواہ مخواہ اس پہ 100 کلو گرام وزن رکھ کر ،، انہیں 100 منوانے کی کوشش کر رھا ھے ،،،،،، یہ تو پانی میں مدھانی مار کر مکھن نکالنے کی سعی کرنا ھے ،، میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا ،، پلیز اپنے میزان درست کر کے پھر اس مواد کو بار بار پڑھیں ،مزید میں کچھ نہیں لکھونگا ،،