نبئ کریم ﷺ کے زمانے میں اور خلفاء راشدین کے زمانے میں جو مسئلہ پیش آتا تھا ، اسی کا حل پیش کیا جاتا تھا ، نتیجہ یہ تھا کہ مسائل بھی کم تھے اور حل بھی محدود تھے – خلفاء کا اصول بھی یہی رھا کہ ” فتوی اسی کو دو جو مسئلے سے دوچار ھے ” فرضی سوالوں کی ھمت شکنی اور بیخ کنی کی جاتی تھی،،، صحابہؓ تک کو روز مرہ زندگی کے مسائل کا پتہ نہیں تھا ،، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما میں تیمم کے معاملے میں آخر تک اختلاف رھا – یہی معاملہ احادیث کا تھا ،، امت میں آج بھی اختلاف کا سبب وھی حدیثیں بنی ھیں جن کا 99٪ صحابہ کو پتہ بھی نہیں تھا اور وہ نبئ کریم ﷺ کے زمانے سے 100 سال بعد مشہور ھوئیں ،، بعد میں محدثیں کو یہ اصول بنانا پڑا کہ جو حدیث نبئ کریمﷺ کے زمانے کے بعد بھی مشہور ھوئی ھو وہ بھی حجت ھے ،،مگر بہرحال اگر وہ نبئ کریمﷺ کے زمانے میں ھی سامنے آ جاتی تو اس کا علاج بھی اسی زمانے میں ھو جاتا ،، جب صحابہؓ بھی فوت ھو گئے ،، حضرت عائشہؓ بھی رخصت ھو گئیں ، نبئ کریم ﷺ بھی رحلت فرما گئے تو ” بڑے بڑے زلزلے ” اس کے بعد آئے ،، جتنی قابلِ اعتراض احادیث زیر بحث آتی ھیں ،، صحابہ کی اکثریت انہیں جانے بغیر فوت ھو گئ ،، گھوم پھر کر ھمارے پاس وھی 150 سال بعد والے راوی ھی ھیں ،، ان کو تڑکا لگا لیں ،، یا لسی میں بنا لیں ، یا سوکھا بھونا بنا لیں ،، آپ کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ھے ،، اس لئے اس کا نتیجہ بھی کوئی نہیں نکلنا ،،،، کیونکہ فیصلے کرنے والے جرأتمند چلے گئے ،،،
آج انسان اپنی ذات سے متعلق فیصلے تو شاید درست کر لیتا ھے ،مگر اولاد کے معاملے میں اکثر و بیشتر ٹھوکر کھا جاتا ھے کیونکہ اولاد اور اس کے درمیان وقت حائل ھو جاتا ھے ، اولاد کی عقل اور باپ کی عقل اور اپروچ میں فرق پڑ جاتا ھے ، اگر نبئ کریمﷺ والی پالیسی اپنائی جاتی تو بعد والوں کے لئے بہت آسانیاں ھوتیں ،،مگر وھاں جماعتیں بٹھا دی گئیں جو رات دن مسائل سوچتے تھے ،، آنے والی نسلوں کے لئے جواب تیار کرتے تھے ،، اور انہوں نے اپنی طرف سے قیامت تک اس امت کے مسائل حل کر کے رکھ دیئے ،، اور یہی سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ، تفرقے کا سب سے بڑا سبب یہی ھے ،،ان کے پاس قرآن کے لئے ٹائم ھی نہیں بچا – نتیجہ زوال اور تفرقے اور تشتت کی صورت میں نکلا – ایک ماں سے کہیئے کہ ذرا ناپ کے بغیر اپنے بچوں کے کپڑے سلا لے یعنی زبانی ناپ بتا کر کپڑے بنا لے ، آپ دیکھیں گے کہ ایک بچے کے کپڑے بھی پورے نہیں آئیں گے ، کسی کو چھوٹے ھونگے تو کسی کو بڑے ،حالانکہ وہ ماں ھے بچوں کو رات دن دیکھنے والی ھے اور بچے بھی گنتی کے ھیں ،،،، جب آنے والے ان دیکھے اربوں کھربوں بچوں کے کپڑے سی کر ھمارے فقہاء ریڈی میڈ گارمنٹس کے طور پر دے گئے ھیں تو پھر مرسیڈز کے پرزے کرولا اور ھونڈا کے پرزے میتسوبیشی میں ٹھونکنے کی غلطیاں تو ھوں گی ،اسی کا نام فرقہ واریت ھے ،، سب کو اپنا اپنا درزی پیارا ھے !! رواه مسلم (145) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( بَدَأَ الإِسْلامُ غَرِيبًا ، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ ) ونقل النووي في شرح صحيح مسلم عن القاضي عياض أنه قال في معنى الحديث :
"أَنَّ الإِسْلام بَدَأَ فِي آحَاد مِنْ النَّاس وَقِلَّة ، ثُمَّ اِنْتَشَرَ وَظَهَرَ ، ثُمَّ سَيَلْحَقُهُ النَّقْص وَالإِخْلال ، حَتَّى لا يَبْقَى إِلا فِي آحَاد وَقِلَّة أَيْضًا كَمَا بَدَأَ ” اهـ