اللہ پاک نے انسانیت کے لئے اپنے آخری رسول ﷺ کا انتخاب عرب قوم سے کیا ، اور انسانیت سے اپنا آخری خطاب عربی میں کیا – اس خطاب کی حفاظت کا ذمہ خود اپنے سر لیا اور نہایت تاکید کے ساتھ گارنٹی دی کہ وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا ،
اس خطاب میں عقائد کی ھر گرہ کھول دی گئ،قیامت تک انسانوں کو جہاں جہاں مغالطے لگنے کا امکان موجود تھا وہ سارے عقدے حل کر دیئے ،ذکر کیئے بغیر فلاسفہ کے فلسفوں کا بودا پن واضح کر دیا ، سوال کھڑے کر کے جواب طلب کیا گیا اور روزمرہ کی سماجی زندگی سے اس کی مثالیں دے کر توحید کی غیرت کا جواب انسان کے ضمیر سے طلب کیا گیا، یہی خطاب نبی سمیت ھر ایک کے ایمان و ایقان کا منبع ھے – خود اللہ پاک نے نبئ کریم ﷺ کو مخاطب کر کے آنے والوں کے لئے حقیقت کو واضح کیا ،،
ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ولٰکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشاءُ من عبادنا و انک لتھدی الی صراطٍ مستقیم الشوری-52
آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ھے اور ایمان کیا چیز ھے مگر ھم نے ھی اس وحی کو وہ نور بنایا جس کے ذریعے ھم ھم اپنے بندوں میں سے جسے چاھتے ھیں ھدایت سے سرفراز کرتے ھیں اور آپ یقیناً سیدھی راہ کی طرف ھدایت دیتے ھیں ،
جس شخص کو قرآن پہنچ جاتا ھے ،اس پر عقائد کے معاملے میں حجت تمام ھو جاتی ھے ،کیونکہ عقائد کو نہایت سہل کر کے بیان کر دیا گیا ھے ،ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر” انہی عقائد کی آسانی کی طرف اشارہ ھے کہ ھم نے قرآن کو سمجھنا سہل بنا دیا ھے تو کوئی ھے جو اس بات کو سمجھے ؟ قرآن میں ھی صحابہؓ کو نبی کریمﷺ کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ھے یعنی کہ جس طرح وہ کرتے ھیں ویسے تم ان کی نقل کرو "ان کو فالو کرو ” اطاعت حکم کے نتیجے میں کی جاتی ھے اور اتباع مجرد دیکھ کر کیا جاتا ھے ، ائیرپورٹ پہ جہاز کو پارک کرانے والی گاڑی کے پیچھے لکھا ھوتا ھے ” فالو می ” اور بس اس کے بعد وہ کوئی حکم نہیں دیتی جدھر گاڑی جاتی ھے جہاز پیچھے پیچھے جاتا ھے – پھر خود نبئ کریم ﷺ نے حج میں فرمایا ، خذوا منی مناسککم ” مجھ سے اپنے مناسک لے لو، یعنی دیکھ کر محفوظ کر لو ،، نماز کے بارے میں حکم دیا کہ ” صلوا کما رأیتمونی اصلی ” نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے دیکھتے ھو کہ میں پڑھتا ھوں ” بس صحابہ نے اسے اس طرح پڑھا جس طرح نبی کریمﷺ کو پڑھتے دیکھا ، اور دن میں پانچ پانچ بار دیکھا ،ان کو دیکھ کر ان کی اولاد نے نماز پڑھنا سیکھا اور ان کو دیکھ کر ان کی اولاد نے یوں عبادات نسل در نسل باپ سے بیٹے کو دیکھ کر منتقل ھوئیں اور اسی کا نام سنت ھے،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا بخاری شریف کی تصنیف سے پہلے وھی دیکھی ھوئی نماز پڑھتے چلے آرھے تھے اور سارا بلخ بخارا اور عراق و شام و مصر سارا ،، نیز اسپین و ھند کے باسی بھی بخاری شریف کی تصنیف سے پہلے وھی دیکھی ھوئی نماز پڑھتے چلے آ رھے تھے، ھر بچہ اپنی نماز اپنے والدین کو دیکھ کر پڑھتا اور سیکھتا ھے ،بخاری مسلم، ترمذی ابن ماجہ پڑھ کر نہیں پڑھتا – اسی طرح ھر بیٹا روزہ اپنے والدین کو دیکھ کر رکھتا اور کھولتا ھے ،صحاحِ ستہ دیکھ کر نہیں ، یہ ایک فطری عمل ھے اسی فطری ذریعے سے قرآن ھم تک پہنچا ھے اور اسی سے عبادات وہ عمل جو ھر دن میں کئ بار اور نسل در نسل ھوتے چلے آ رھے ھیں ان کا تسلسل ھی وہ چین ھے جس سے وہ ثابت ھوتے ھیں ،، کسی تحریری ثبوت کے وہ محتاج نہیں ھوتے – سنت نام ھے عمل کا ،، نہ کہ خبر کا – سنت کا تعلق عمل کے ساتھ ھے جو خبر عمل میں تبدیل ھو جاتی ھے اور بار بار دھرائی جاتی ھے کہ وہ رواج بن جائے وہ سنت کہلاتی ھے- نبئ کریم ﷺ ایک چھوٹی سی بستی میں رھتے تھے جو آج ساری مسجدِ نبوی میں سما گئ ھے ، جس ھستی کا لعاب وبلغم لوگ نیچے نہیں گرنے دیتے تھے ، جس ھستی کے وضو کردہ پانی کے لئے اصحابؓ میں چھینا چھپٹی ھوتی تھی، جس کی بیویاں ان کے پیئے ھوئے پانی کو تبرک سمجھ کر حجرے سے صحابہ کوآواز دے کر مانگا کرتی تھیں کہ اپنی ماں کا حصہ مت بولو، اس ھستی کا عمل کوئی کیسے بھول سکتا تھا ؟ کوئی قول کیسے بھول سکتا تھا ؟ جن کا ایک دوسرے سے ملاقات پر پہلا سوال ھی یہ ھوتا تھا کہ ” کیا آج اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ فرمایا ؟ ” اس تین ھزار کی بستی نے نبی ﷺ کی ھر ادا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھا اور ام السنۃ کہلائی ،، سنت مدینے والوں میں خون کی طرح دوڑتی تھی اور روح کی طرح سرگرم تھی ،وہ کتاب اللہ کے بعد ان کا ریفرنس تھی ، اس بستی نے ماں کا کردار ادا کرتے ھوئے اپنے بیٹوں کے ذریعے اس سنت کو امت تک پہنچایا ، کمال کی بات ھے کہ صحابہؓ میں سیاسی اختلاف تو ھوئے اور نوبت قتال تک بھی پہنچی مگر عبادات میں کوئی اختلاف نہیں ھوا ، وہ اس ناراضی کی حالت میں بھی نماز ایک دوسرے کے پیچھے پڑھتے رھے یہانتک کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ، مسجدِ نبوی میں مسنون نماز ھی پڑھاتے رھے اور صحابہؓ ان کے پیچھے نماز پڑھتے رھے – پھر یہ مذھبی اختلاف کیوں ، کس طرح اور کہاں سے در آیا ؟؟،اس پر بعد میں بات کرتے ھیں ،پہلے سنت کو سمجھ لیجئے – حدیث کہتے ھیں کلام کو جو اسی وقت وجود پاتا ھے جب کہا جاتا ھے ،یعنی ایک نئ چیز تخلیق ھوتی ھے، جب کہ سنت اس عمل کو کہتے ھیں جو پرانا ھوتا ھے ، ھو ھو کر نشان چھوڑ چکا ھو ،جس طرح کثرتِ آمد و رفت سے رستہ گِھس جاتا ھے اور اپنے ارد گرد سے ممتاز اور نمایاں ھو جاتا ھے ،اور لوگ بیساختہ اس پر چلے پہ مائل ھو جاتے ھیں ،، دو کنال صاف ستھری پڑی زمین میں سے گزرتے وقت آپ ھمیشہ اس چٹیل راہ پر چلتے ھیں جس پر دیگر لوگوں کے چلنے سے نشان پڑ چکے ھوتے ھیں بس وھی سنت ھے !
اللہ کی حدیث( قرآن ) میں ھے کہ اس نے عیسی ابن مریم کو بغیر باپ کے پیدا کیا ھے ، قرآن میں یہ جگہ جگہ آیا ھے ، و من اصدقُ من اللہ حدیثاً، اللہ سے بڑھ کر سچی حدیث کس کی ھو گی ؟ مگر یہ بن باپ پیدائش کا ذکر بار بار آنے کے باوجود،، بار بار ھوا نہیں ھے ! لہذا اللہ کی سنت نہیں ھے ، اللہ کا سچا قول ھے سچی حدیث ھے کہ اس نے ایک عورت کو بغیر شادی اور بغیر کسی ازدواجی تعلق سے صرف اپنے کلمہ کن سے اولاد دی ھے ،،مگر اللہ کی سنت اس حدیث کے خلاف ھے ، سنت آج بھی جاری ھے اور قیامت تک جاری رھے گی کہ ” یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثی ،، اے لوگو ھم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے ،، نطفے سے تخلیق رب کی سنت ھے جو قیامت تک جاری رھے گی مگر بغیر نطفے کے ایک عورت کو بچہ دینا حدیث ھے لہذا بس بیان ھو کر رہ گئ ھے ،آج کوئی عورت یہ دعوی کرے کہ اسے مریم کی طرح بغیر باپ کے بچہ ھو گیا ھے تو کوئی نہیں مانے گا حالانکہ اللہ بھی وھی ھے اور اس کے اختیارات بھی وھی ھیں ،مگر اللہ کی سنت یہ نہیں ھے لہذا ” ولن تجد لسنتِ اللہ تبدیلاً ” کا حوالہ دے کر اس دعوے کو رد کر دیا جائے گا اگرچہ مریم علیہا السلام والے واقعے کو ھم سچی حدیث سمجھتے ھیں ،، اس طرح یہ واضح ھو جاتا ھے کہ دین کی بنیاد قران و سنت پہ ھے ،، اور سنت نا قابلِ ترمیم اور نا قابلِ انقطاع عمل ھے ، کبھی بھی اس امت میں عبادات کا انقطاع واقع نہیں ھوا کہ جس کی دوبارہ کھوج کی جائے کہ صحراؤں میں جا کر ڈھونڈا جائے کہ نبی اللہ ﷺ نماز کیسے پڑھا کرتے تھے ،، اب حدیثوں کی ضرورت کیوں محسوس کی گئ ،، یہ اس مضمون کے اگلے حصے میں زیرِ بحث آئے گا